بڑے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں اور کتابوں میں بھی پڑھ رکھا ہے کہ اپنے لوگوں میں رہنا صحت مندانہ عمل ہے۔ اس طرح بندہ اپنے آپ سے شناسا رہتا ہے۔
ایک چیز جو اپنوں میں رہ کر سیکھی ہے کہ تضادات رشتوں کی روح ہیں۔ باپ بیٹے کو اپنے جگر کا ٹکڑا بھی کہے گا اور اسی ٹون میں مطلب پرست ہونے کا طعنہ بھی دے دےگا۔ بھائی بھائی پر فخر بھی کرے گا لیکن ہر دوسری بات کے ساتھ ‘کہ آجکل بھائی بھائی کا نہیں’ ، ‘بیٹا باپ کا نہیں’ کا لاحقہ بھی ضرور لگائے گا۔ رشتہ دار بڑی بڑی باتیں اور چھوٹی حرکتیں کریں گے۔ ویسے سارے خون کے رشتوں میں ہمہ وقت ایک سرد جنگ سی رہتی ہے۔ لیکن جب آپ جوان ہیں اورشادی کے لیے رضامند ہیں ۔تو یہ خاندانی خون سفید ہونے کی بجائے کچھ زیادہ ہی گاڑھا ہوجاتا ہے
ایسا ہو شائد ، لیکن اس اپنا پن میں ہمیں ہمہ وقت دو طرح کی شخصیات سے واسطہ رہتا ہے- بیوپار شخصیت اور ادھار شخصیت۔ اب جو رشتہ دار قسمت سے بیوپاری بھی واقع ہوا ہے تو اس سے آپ کو ہر وقت اس طرح کے مشورے سننے کو ملیں گے۔ دیکھو میاں یہاں کوئی کسی کا نہیں، سب اپنا مطلب نکالتے ہیں بس ، ارے بھائی ! یہاں بھائی بھائی کا نہیں ، بیٹا باپ کا نہیں۔ اس طرح کی قنوطیانہ قسم کی گفتگو کے بعد حضرت کاروبار کی اہمیت پر سیر حاصل بات کرتے ہیں۔ سنو میاں ! سمجھدار بندہ وہی ہے جو کہیں کاروبار کرلیتا ہے۔ کہیں کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردینا چاہیے۔ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے۔ کچھ پلے ہوگا تو تب ہی اہمیت بنے گی نا۔ لوگ سلام کریں گے۔
اب بیوپارانہ نصیحت کے بعد رازدارانہ انداز میں کہتے ہیں۔ دیکھو بھائی اگر آپ کو کوئی مشکل ہو کاروبار میں تو بتا یئے گا ۔ آپ کا پیسہ انوسٹ کرادے گیں۔ پرافٹ کی گارنٹی ہے۔ اتنے کاروباری دوستوں سے اپنا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ اب تو تو رشتہ دار ہے۔ اپنا خون ہے۔ آپ کے لیے اتنا سا کام نہیں ہوگا کیا ! اب بندہ اپنوں کے لیے ہر چیز کر جاتا ہے اپنا خون اپنا ہوتا ہے ناں
اب کچھ بات ہو جائے ادھار شخصیت کی۔ ادھار سے کہیں آپ یہ مطلب نہ لے لیجے گا کہ ایسے حضرات ادھار مانگتے ہیں یا پھر ادھار دیتے ہیں۔ قطعا ایسا نہیں۔ ادھار شخصیات اصل میں پاکستانی حکومت کی طرح ہوتی ہیں۔ جو ہمیشہ ادھار میں جیتی ہے اور زمہ داری کی بجائے الزامات کے تحت چلائی جاتی ہے۔ کبھی آپ نے کسی سیاستدان کو دیکھا ہو یا سنا ہو جس نے اپنے کیے کی زمہ داری قبول کی ہو ؟ سب کیا دھرا ان سے پہلے والوں کا ہے۔ وہ ہی تو سارا عذاب مچا کے گئے ہیں۔ ہر آنے والی پارٹی پیچھے والی پارٹی پر الزام لگا کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے۔ اس طرح ہم بفضل زہیں سیاستدانوں کے پیچھے کی طرف رواں دواں ہیں۔
بعینہ اپنوں کی یہ قسم ہر وقت اپنے بزرگوں کو کوستی ملے گی۔ دیکھ یار اپنا چاچا کیسا چالاک انسان نکلا۔ کتنا کچھ کما گیا اپنے بچوں کے لیے۔ یار اپنے سیف کو دیکھو! اس کا باپ کیا کچھ نہیں چھوڑ گیا اس کے لیے۔ ادھر ہمارے ابا جی ہیں۔ بس احسان جتاتے رہتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کیا کیا ہے انہوں نے ہمارے لیے۔ سوائے پیدا کرنے کے ۔ اس میں بھی اماں جی کا رول ویسے زیادہ ہے۔ کسی شرارتی دوست نے لقمہ دیا۔
اب ایسے رشتہ داروں کے دکھ سنا بہت صبر آزما کام ہے۔ ہاں نا بھایی اب ہم اپنے مرے ہوئے چاچا جی کو زندہ اور ہٹے کٹے کزن کی بے رنگ زندگی کا زمہ دار کیوں ٹھہرائیں؟ اب چاچا جی نے اپنی اننگز کھیلی ۔ اس حضرت ادھار صاحب کو اپنی زندگی جینی چاہیے۔ اس طرح اگر ادھار در ادھار چلا جائے تو الزام تو سارا حضرت آدم پر آتا ہے۔ نہ وہ نافرمانی کے مرتکب ہوتے نہ ہم جیسے نازک مزاج لوگ اس کرخت زمیں زادوں کے ہاتھوں زلیل وخوار ہوتے۔
ادھارشخصیت کی بھرمار ہے۔ زرا چلیں نا ہمارے ساتھ چائے کے ہوٹل ہر۔ منجیوں پر گاوٰ تکیہ لگے بڑے جغادری ملیں گے جو اپنی زندگی ادھار فلسفہ پر جی رہے ہیں۔ سارا دن چائے پینا اور رشتہ داروں کو کوسنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ ادھار شخصیات کی اگر درجہ بندی کی جائے تو تین طرح کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں
کچھ ایسی ادھار روحیں ہیں جو سمجھتی ہیں کہ اگر رشتہ دار کسی طرح ان کی زندگی سے نکل جائیں تو شائد ان کے لیے جینے کا کوئی امکاں پیدا ہوں۔ اب رشتہ دار کوئی لیمپ کے جن تو نہیں کہ انہیں واپس لیمپ میں گھسا دیا جائے۔ اب نہ اپنوں سے جان چھوٹے گی نہ ان کی زندگی کے کسی لمحے میں قرار آئے گا۔ بس ہر لمحہ یہ بڑڈن اٹھائے پھرتے ہیں۔
دوسری قسم زرا سیاسی ہے۔ اچھا ان کی شخصیت میں ایک ڈائیکاٹومی ہے۔ جیسے ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ فوج اس ملک کے سیاستدانوں اور سویلینزکو کام ہی نہیں کرنے دیتی۔ سو جب تک اس طرح کی فوج ہے۔ ملک کہاں ترقی کرے گا۔ اب دوسرا طبقہ سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھتا ہے۔ جب تک ایسے سیاستدان ہیں ۔ ملک کا کچھ نہیں ہونا۔ ایسی ادھار شخصیات سارا دن بیٹھک پر، چائے کی دکانوں پر، شادی بیاہ کے کٹھ پر، بس پنڈولم کے دونوں طرف جھولتے رہیں گے۔ ایک طرف سے آواز آئے گی بھائی ایسٹبلشمنٹ جب تک ہے بھول جاوٰ ترقی کو۔ جواب آئے گا ایسے سیاستدانوں سے آپ نے چاند پر مشن بھیجنے ہیں یا کرپشن کے محلات تعمیر کرنے ہیں۔ مطلب اب نہ فوج کہیں جانے والی ہے اور نہ سیاستدان۔ بس ایک بوجھ بیچارگی ہے جو ماحول میں پھیلا جا رہا ہے اور جس کے ساتھ ایسی شخصیات جی رہی ہیں۔
ادھار شخصیت کا تیسرا رنگ زرا فلسفیانہ ہے۔ غالب کے اس شعر کی طرح
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ روحیں سگریٹ پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ ہر وقت زمانے کی تلخی کا بوجھ اپنے فلسفیانہ زہن اور سست کندھوں پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ سگریٹ کے کش کے ساتھ صرف دھواں ہی نہیں نکالتے بلکہ منہ سے اندر کے دکھوں کا لاوہ بھی کبھی کبھی اگل دیتے ہیں۔ بہت دفعہ دوستوں کو شکایت ہوتی ہے کہ جناب آپکی بات سمجھ نہیں آئی۔ ویسے تو توجہ نہیں کرتے۔ ہاں اگر موڈ میں بیٹھے ہوں تو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں۔ ارے نادانو! کبھی تم جیسے لوگوں کو آیئ ایم ایف کے لون پروگرام کی سمجھ آئئ؟ نہیں نا ! تو بڑے معاملات ہیں یہ سب اور تم کس شمار قطار میں۔
ارے بھائی ہم نے تو اپنوں میں رہ کر اب تک یہی سیکھا ہے کہ اپنوں میں رہنے کا مزہ تب آنا شروع ہوتا ہے جب کان ، منہ بند اور دماغ کھلا رکھنے کی صیحیح صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔
Saddam Hussain says:
Very well written sir.You wrote the right thing.
Yaseen Baig says:
آپ کا حسن نظر جناب
Elaria Ælish says:
Mosltly people are loosers and they are the same catagory …they can only criticise
And can’t do something new instead of wasting their time in useless discussion..
As you mentioned people above they All are bromides…
i read Gellet Burgess he said
The brimides who are much greater in number in our society ,they are very ordinary , who are philistines,uncultured, the conservatives ,the bores ,dull and common in their behaviour ,idead and actions .
Yaseen Baig says:
شکریہ الیریا
آپ نے کافی اچھی باتیں کی ہیں۔ اگر اس برومائیڈ والی بات کو تھوڑا اور وضاحت سے بیان کردیں گی تو اس پلیٹ فارم کے ریڈرز اس کے بارے میں آگاہ ہوجائیں گے۔
Elària Ælish says:
Why not sir…
As i read recently Gellet Burgess
he devides human beings into two broad categories , The
Bromides and Sulphites .
The Bromides are muCh greater in number in our Society they are very ordinary they follow routine like common people .A Bromide cannot change himself he will Always be The same ,lazy , Dull ,boring person.they don’t have their own thinking they are dishonest not orginial in their behaviour we can’t expet anything good or reproductive coming from them in society .
Bromide chemically is a compound of bromine which calme the nerves .
While
Sulphite are in minority they are opposite of Bromide bright,interesting,intelligent and unusual. They are creative honest orginal in their behaviour and have their own thinking .All great warriors,generals ,rulers,politicians,thinkers,poets,artists and reformers are are surely sulphituc.
Hope i have clear that?
Yaseen Baig says:
Yes, got much clarity from your explanation.
You took pain to explain it in detail, I thank you on behalf of my readers.
Elària Ælish says:
Not at All i did’nt take pain to explian it …
I really enjoyed when i wrote this. …i love to listen the creative people i love to know about wisdome , and feel proud to share about useful stuff which i know.
Rather i felt thankful to you when you put interest for further detail.
Rimsha Hussain says:
Well said. Once i complained to my dad about this kind of politics and he replied “have you ever seen the bottom of pepsi bottle” ? I thought he would ask me to drink it but he told me an amazing rule of life. My dad asked me to read the line written at the bottom of this bottle and it was “suno sb ki , kro mann ki”. your last line is so relatable. 😄😄😄
Yaseen Baig says:
شکریہ رمشا حسین
آپ کے والد صاحب ایک زہین انسان واقع ہوئے ہیں۔
مامون کریم says:
کمال کا تجزیہ کیا ہے رشتہ داروں کا۔۔۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب کا قول ہے “دشمن کی تین اقسام ہیں۔ دشمن، جانی دشمن، رشتہ دار” آپ نے تیسری قسم کے دشمن پر روشنی نہ ڈال کر کسر نفسی سے کام لیا ہے ۔
Yaseen Baig says:
بہت شکریہ مامون کریم صاحب
آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔
یقینا مستقبل میں یوسفی صاحب کے افکار کی روشنی میں لکھنے کی کوشش کریں گے۔
Ahsan Hasnain says:
بہت اعلیٰ بیگ صاحب
Yaseen Baig says:
بہت اچھا لگا آپ کے فیڈبیک کو دیکھ کر۔
امید ہے آپ کو میری تحریریں پسند آئیں گی۔