خاکے

بڑے بیگ صاحب

خوبصورت اور بااعتماد زندگی کے ہزارہا انداز ہوں گے۔ جس انداز سے میری شناسائی سب سے پہلے ہوئی اس کو ابراہیم بیگ کہتے ہیں۔

بیگ صاحب نفاست اور مضبوطی کا ایک امتزاج۔ ان کے انداز واطوار بہت نفیس، گفتگو شائستہ اور شستہ۔ مگر اندر سے ایک بااعتماد، اور مضبوط شخصیت۔ ہوسکتا ہے ڈی این اے ہی ایسا ملاہو ان کو جس نے دو متضاد کو ایک خو میں لانا سکھادیاہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کو متضاد گردانتے ہی نہ ہوں۔ مجھے تو لگتا ہے انہوں نے جینا ایسا پایا ہے جہاں ضروری تھا خود کو مضبوط رکھنا ۔ وہ خود کہتے ہیں وقت نے اتنے آپشن نہیں رکھ چھوڑے تھے ان کے لیے۔ زندگی کو سٹرگل سے ہی آگے بڑھانا تھا۔ اب مضبوط اعصاب نہ ہوں تو پھر سروایئول کیسی۔ بقا آپ کا پرابلم ہے دنیا کا نہیں جس میں آپ کو رہنا ہے۔ بقا کے تلخ وار سے بھی بچ نکلیں اور ایک درجہ مروت اور نفاست بھی برقرار رکھیں۔ ضرور بیگ صاحب نے کمال کی زندگی گزاری ہے

اچھا جو پائنیر ہوتے ہیں ان کے پاس ایسا ڈسپلین نہیں ہوتا جو بعد میں آنے والوں کو میسر ہوتا ہے۔ وہ زندگی لکیر میں نہیں جیتے بلکہ زندگی ان کے گرد طواف میں رہتی ہے۔ ابراہیم بیگ نے بھی زندگی کو جیا ہے ماپا نہیں۔ ڈسپلن پہلے سے اوڑھ کے نہیں چل پڑے تھے۔ بس قدم اٹھاتے گئے اور زندگی کا راستہ بنتا گیا۔ جہاں جس راہ پر زندگی نے ڈالا،انہوں نے جیا اس کو۔

کالا کالونی, کھوہ مٹھے والا، جو ایک غیرمعروف گاؤں ہے پنجاب کے جنوب میں ، کوہ سلیمان کے ڈیرہ جات کے دامن میں، جہاں ایک طرف خشک پہاڑ ہیں تو دوسری طرف دریائے سندھ اپنی موج میں مست بہے جا رہاہے۔ اس جغرافیایئ تضاد کا ہونا بھی ایک خوبصورتی ہے۔ پہاڑ کے دامن میں وسیع دامان جس کی خوبصورتی سرائیکی شعراء کو قافیے اور ردیف مہیا کرتی ہے۔ اور مشرق میں دریا سندھ اور اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زرخیز بیٹ۔ چند کلومیٹر میں زمین کا ایسا پھیر صرف بیگ صاحب کی دھرتی کو میسر ہے۔ اب بھی بیگ صاحب خود کو دامان کا باسی سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔

دامان کی وسعت میں ہی ہمارے خواب پوشیدہ ہیں اور ہمارے پرکھوں کی آوازیں طواف کرتی ہیں

باپ صدیق ، بیٹا ابراہیم۔ پیشہ مزدوری۔ زندگی کٹھن مگر حوصلے بلند۔ تعلیم ندارد، مگر شعور اور احساس کی کھیتی زرخیز۔ تمن لنڈ ، زیر سایہ سردار۔ چند بڑے سرداروں کے زیر سایہ کئی قسمی چھوٹے چھوٹے سردار۔ ہر دور کا انسان اپنے تئیں یہی سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی مشکل ہے۔ اگر غیر جذباتی تجزیہ کیا جائے تو ہر دور کے اپنے چیلنجز ہوتے ہیں۔ اور ہر دور کے اپنے مصائب اور تضادات ۔ مگر ان مصائب اور تضادات کو اورکم کرکے جو شخصیت بنتی ہے وہ ہی اپنے دور کی نمائندہ شخصیت ہوتی ہے۔ اگر ابراہیم بیگ کی شخصیت کو دیکھا جائے تو یہ لازمی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر کے جذبوں اور رجحانات کے ساتھ اونسٹ رہے ہیں۔ ان کا ایک سماجی پہلو اس چیز کی گواہی دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ کیسے انہوں نے ان مشکلات کا سامنا کیا۔

غربت اپنے تئیں ایک انداز زندگی ہے۔ لاکھوں لوگ اس انداز کو جیتے ہیں خوشی سے، ناخوشی سے یا پھر لاعلمی سے۔ مگر غربت کا شعور ایک پریشان کردینےوالی چیز ہے۔ یہ شعور دو دھاری تلوار ہے۔ کتنے لوگ ہیں جن کے لیے اس شعور نے مہمیز کا کام کیا اور قدرت کی مہربانی سے اس انداز زندگی سے نکل گئے۔ اور کیسے کیسے خوبصورت لوگ مل جاتے ہیں جو غربت کے دریا کو پار نہ کرپائے اور اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کراپنے حال کو منفی رویوں اور سوچوں کی آماجگاہ بنا بیٹھے۔ ایک نوجوان لڑکا ابراہیم جو ابھی تعلیم کی ابتدائی سیڑھیوں پر ہے اور جس کے گرد یا تو غربت ہے یا پھر ایک فیوڈل شاہانہ طرز زندگی۔ اب اس جیسے ماحول میں اس نوجوان کے زہن کی تعمیر کس طرح ہوئی کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوا نہ ہی احساس ابتری۔ ایسے لگتا ہے کہ نوجوان ابراہیم کے ذہن کی حقیقت پسندانہ تشکیل شائد اسی دور میں ہوئی جب ان کے لاشعور میں اس خیال نے جڑ پکڑی ہوگی کہ اس غربت سے نکلنے کا کوئی راستہ اگر ہے تو وہ علم کے دروازے سے جاتا ہے۔ اب اس شعوری تشکیل میں یقینا ان کے والد گرامی کا بھی حصہ ہوگا۔ ان کی خودداری کی بھی جھاگ لگی ہوگی۔

ایلیمنٹری سے میٹرک کا سفر بھی دلچسپ ہے۔ پیر عادل میلے سے ایک نوجوان سیدھا ہائی سکول نمبر ایک ڈی جی خان جاتا ہے ایڈمشن کے سلسلے میں۔ میلے کا روایتی لباس کرتے کے نیچے تہہ بند باندھا ہوا اور کاندھے پر صافہ ۔ اب آگے پرنسپل بیٹھے ہیں جو گھورے جارہے ہیں۔ مدعا عرض ہوتا ہے کہ اس ادارے میں داخل ہونے کی خواہش ہے۔ پرنسپل عبداللہ صاحب سوال وجواب کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ اٹھائیس سوالوں کے بعد ان کو تسلی ہوتی ہے کہ صافہ اور تہہ بند سے آگے جہاں اور بھی ہے۔ اعتماد کی اپنی دنیا ہے اور اس کے اظہار کے ہزارہا انداز۔ اربن سکالرشپ سکشن میں داخلہ مل جاتا ہے۔ مگر صافے کا سفر کچھ دن چلتا رہتا ہے۔

مگر اصل مرحلہ ایک دیہاتی کا شہری قالب ڈھلنا تھا۔ ہم انسان جو بھی کہتے اور لکھتے رہیں مگر شہر اور دیہات کی ڈیوائڈ بہت پختہ ہے انسانی معاشروں میں۔ اس ڈیوائڈ کے دونوں طرف بھرپور زندگی گزارنے کا ہنر کوئی آسان ایکسرسائز نہیں۔ میں تو اسے آرٹ کا نام دوں گا۔ شائد اپنے ہائی سکول نمبر ایک کے زمانہ طالبعلمی میں اس صافہ پوش نوجوان نے یہ آرٹ سیکھنا شروع کردیا ہو۔ اور پھر اس کا کلائیمکس یو ای ٹی ٹیکسلا میں جا کر ہوا ہو ۔ جو بھی ہوا معاملہ۔ صافہ پوش نوجوان کے لیے آگے زندگی میں کبھی یہ مرحلہ درپیش نہ ہوا کہ کب اسے دیہاتی ہونا ہے اور کب شہری۔ جب اس کا جی چاہا پنٹ پتلون سجا کے شہری زندگی کا حصہ ہوگیا۔ لباس کا شہری ہونا کافی نہیں بلکہ شہر کی زندگی کا شعور بھی ہو۔ اور جب جی میں آیا صافہ اوڑھا اور دامان پہینچ گیا۔ وہی دیہاتی کا دیہاتی۔ گاؤں کے بوڑھے مل رہے ہیں، گپیں چل رہی ہیں۔ ایک دوسرے پر بٹ کڑاک چل رہا ہے اور بندہ محسوس ہی نہیں ہونے دے رہا کہ شہری ہوگیا۔

مجھے تو لگتا ہے ابراہیم بیگ شہری بھی ہے اور دیہاتی بھی، مگر دیہات اور شہر کے پریجیڈیس سے پاک۔

دونوں سماجی دنیاؤں کو جی کر بیگ صاحب نے جانا کہ دونوں اپنی اصل میں خوبصورت ہیں۔ نہ دیہات اجڈ اور گنوار لوگوں کی جگہ اور نہ شہر بے حیائی کی آماجگاہ۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی حقیقت پسندانہ شعور کا ایک ایڈوانسڈ درجہ تھاجب نوجوان ابراہیم نے غربت سے نکلنے کے لیے اپنی زہنی تشکیل کی تھی۔

اب انجینئرنگ کا دور آتا ہے جس میں انجینئرنگ کم اور سیاست زیادہ۔ غربت اور اس کے اثرات کا شعور پختہ ، دور بھی ایسا جب بھٹو صاحب کی تحریک نے نوجوانوں کو پولیٹیسائز کیا تھا۔ مارکسی نظریات سے بھی آگہی تھی۔ فیض اور غالب کو بھی پڑھتے رہتے تھے۔ بس پھر کیا تھا کود پڑے سیاست میں۔ پہلے طلبہ یونین کے جائنٹ سیکرٹری بنے اور بعد میں جنرل سیکٹری بن گئے۔ ضیاء صاحب کا دور دورہ تھا۔ ایسی جرات کہاں برداشت ہوتی ۔ ریسٹیگیٹ ہوئے ، جیل گئے، مارشل لاء کیسز بھگتائے۔ پنڈی جیل بھی رہے۔ مگر گاؤں میں ایک ہی رائے تھی کہ اپنا خان ڈٹا ہوا ہے۔

اچھا ایک چیز بیگ صاحب کی منفرد ہے۔ انہوں نے شعور زندگی جی کر زیادہ لیا ہے ۔ اپنے اندر حقیقت پسندانہ شعور کی تخلیق کی طرح ان کا سیاسی شعور بھی عملی ہے۔ اس لیے جب ان سے بات کی جائے تو فلسفی سے زیادہ زندگی سے بھرپور انسان سے ملاقات ہوتی ہے۔ اور زندگی سے کمائے ہوئے اس علم نے ان کا حافظہ کتنا فریش رکھا ہے۔ آج بھی اپنے اساتذہ کے نام، یار بیلیوں کے نام، مختلف واقعات کی تاریخ ان کو زہن پر نقش ہیں۔ جب وہ بتا رہے ہوتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کل کوئی واقعہ ہوا ہے اور وہ ہمیں روداد سنا رہے ہیں۔

اب سیاست میں بہت پریجوڈییس ہے ۔ لوگ بس اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ بیگ صاحب کا ایک نقطہ نظر ہے جس کا وہ اظہار برملا کرتے ہیں۔ کوئی جھجک نہیں اس حوالے سے۔ مگر ایک چیز یہ بھی ہے وہ نوجوانوں کو نئے نظریات سے بدظن کرتے نہیں دکھائی دیتے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ سیاسی حقیقتوں کے حوالے سے ریجڈ ہوگئے ہوں۔ اب جس پر سیاست بیتی ہو اس سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے۔ صاف ظاہر کتاب کا علم اور زندگی کے علم کا موازنہ بہت کم ہی ایک جیسا نتیجہ دیتا ہو۔

ان کی سیاسی وابستگیاں بھٹو مرحوم کی نظریاتی جدوجہد کے ساتھ رہی ہیں۔ ان کا ایک وسیع حلقہ احباب بھی ہے۔ اب یہ ایک فطری سی بات ہے کہ جس سیاسی عہد نے ان کو متاثر کیا تو یار بیلی بھی اسی طرز کے ہوں گے۔ اب اس پر رائے بنانا کوئی اعلی ظرفی تو نہیں۔

ہم سیاسی نظریات کی کس سمت کھڑے ہیں اس کا فیصلہ شائد ہماری ذاتی دلچسپی سے زیادہ وقت کا وہ دھارہ کرتا ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہوتے ہیں۔ اب بیگ صاحب نے تو اپنے وقت کو بھرپور جیا ہے تو وہ کیسے لاتعلق رہ سکتے ہیں۔ ہاں ایک چیز ان میں ضرور ہے کہ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں کہ ماضی کی جگالی کی بجائے اپنے اپنے عہد کی رتوں کو ایک دفعہ جی ضرور لگائیں۔ جو شعور جینے سے حاصل ہوتا ہے ویسا لطف خطبات اور پیروی بزرگان سے کہاں میسر۔

اچھا اب سیاست ہوگئی، نطریات کی بھی تشکیل ہوئی۔ ایک مزاج بنا ، ایک حلقہ احباب اور زندگی کا ایک انداز فکر۔ اتنا کچھ تو بیگ صاحب اپنی انجینرنگ کی ڈگری کے ساتھ لے آئے۔ لیکن سب ندارد جب اپنی وستی کے چائے خانے پر بیٹھے ہوں تو اپنے وسیب والوں کی دلچسپی تو خان صاحب کی نوکری میں ہے۔ ان کو کیا کہ خان صاحب کتنے انقلابی ہو آئے ہیں یا پھر ایک وسیع حلقہ احباب بنا کر آئے ہیں۔ یا پھر 300 ماہانہ والی یو ای ٹی ٹیکسلا کی مصروف زندگی گزار آئے ہیں۔ 1983 سے 1986 تک بیگ صاحب کو ایک درجہ فراغت ملی۔ جاب ہو نہیں پارہی تھی مگر یار بیلی خوش تھے کہ بیگ صاحب تو میسر ہیں نا ہمیں۔ فورٹ منرو میں محفل موسیقی چل رہی ہے تو کبھی کہیں دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں کی محفل۔ اور کسی دن شعراء اور مقامی ادیبوں کے ساتھ بیٹھکیں۔

اب دیکھیں کیسے تہہ در تہہ انسانی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ صافہ پوش دیہاتی سے اربن سکالرشپ سیکشن کا طالبعلم ، اور یو ای ٹی ٹیکسلا کا سیاسی فیم والا انجینیر، اور دہہات کی ڈیوائڈ کراس کرکے اربن زندگی جینے والا پھر سے مقامی ادب اور شاعری کی چاشنی میں جی رہا ہے۔ ایسی شخصیت کے لیے لفظ اپنی معنویت سے نکل کر زندہ جاوید علامتیں بن جایا کرتے ہیں۔ بیگ صاحب کے آگے کلچر ایک لفظ کم مگر ایک جیتی جاگتی زندگی زیادہ ہے بلکہ ایک توانا میموری۔ اسی طرح جیسے شاعر پر کیفیات گزرتی ہیں۔ اسی طرح بیگ صاحب پر زندگی اپنی بہت ساری وسیب کی حقیقتوں کے ساتھ گزر رہی ہے۔ بس ان کے اظہار کی زمیں الفاظ نہیں تھے بلکہ وسیب کی خدمت تھی۔

جیسے شاعر کی بھی ایک زمین ہوتی ہے جہاں پر وہ ایک درجہ منفرد شاعری کرتا ہے۔ اس زمیں پر اس کے اظہار کے رنگ سب سے زیادہ کھلتے ہیں۔ اسی طرح بیگ صاحب کی شخصیت کا اظہار ان کی وسیب کے لوگوں کی خدمت میں ہوا ہے۔ کچھ وقت ایسا تھا، معاشرے کی طبقاتی ڈیوائڈ بہت گہری اور شدید تھی، تلخیاں تھی اور سیاست ایک درجہ بیزار کرنے والی تھی۔ ایسے حالات میں محروم طبقات کے ساتھ کھڑے ہونا، ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو حل کروانا، سرکار میں ان پر ہونے والی زیادتیوں سے انہیں محفوظ رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرنا، غریب کو دامے، درنے اور سخنے آگے بڑھنے کی ترغیب دینا۔ اکیلا ابراہیم بیگ اتنے کردار کیسے ادا کرسکتا تھا ؟

اب جو مجھے سمجھ آتی ہے کہ ایک طرف ہمارا فیوڈل تھا جو کی گئی خدمت کا پوار صلہ تابعداری کی صورت میں مانگتا تھا، پھر اس تک اپروچ کرنا بھی مشکل تھا۔ ادھر بیگ صاحب نے جب ایسے جبر زدہ ماحول میں خدمت کا پہلا پتھر پھینکا تو لوگوں کو یہ آلٹرنیٹو زیادہ کمال لگا۔ ایک بندہ ہے یار جو ملتا ہے، ہم سے گپیں لگاتا ہے، ہماری بات سنتا ہے، افسران بالاء سے بات کرتا ہے ہمارے لیے، اور بدلہ میں ہم سے کچھ توقع نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے یہی سماجی ناولٹی نے خلق خدا کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ اب اسی سماج میں ہی تو وہ پلا بڑھا تھا اور کتنا مشکل تھا بیگ صاحب کے لیے خدمت نہ کرنا اپنے وسیب کی۔

اگر آپ میری امید کرنے والی حس کو معاف کریں تو مجھے تو بیگ صاحب کی اس خدمت والی زندگی میں ایک سبق پوشیدہ ملتا ہے۔ اور وہ سبق ہے کہ ہم اپنے وسیب سے اس پرانی وبا فیوڈل ازم کا خاتمہ کیسے کرسکتے ہیں۔ جب فیوڈل الازم کو بےلوث خدمت سے بدل دیا جائے تو کون فیؤڈل، کیسی فیوڈل سوچ۔ راستہ تو ہے ہمارے سامنے اور ایک راہی ایک لمبا سفر کرکے بھی آیا ہے اس راستے سے۔ اور اس کا لباس بھی صاف ستھرا ہے ۔ سنا ہے اپنے سارے سردار بھی اس کا احترام کرتے ہیں۔ تو میرے بھائیو کیا سردار کو گالیاں دینے سے سرداری نظام ختم ہو جائے گا۔ ابراہیم بیگ نے ایک زندگی جی کر ہمیں بتایا ہے کہ ہمارے پاس اور بھی آپشن موجود ہیں گالیاں دینے اور ملامت کرنے کے۔

اور آخر میں بیگ صاحب کی زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ ۔۔۔۔۔۔شائد کسی کے دل کو بھا جائیں۔

  • وزڈم اور شعور کی تخلیق تضاد کی سرزمیں پر ہوتی ہے، جو تضاد کو پار کرجاتا ہے وہ کچھ نہ کچھ سیکھ جاتا ہے
  • انسانی دکھ کا صحیح شعور غربت کو سمجھے اور جیے بغیر نامکمل ہے
  • ہم حقیقی معنوں میں انسان دوست اس وقت بنتے ہیں جب ہم اپنے ارد گرد عورت کی سفرنگز کو حقیقت تصور کرلیتے ہیں
  • زندگی ہمارے علم اور کنڈکٹ سے ہی ارفع ہوتی ہے
  • ہماری عبادات میں عبدیت سے زیادہ ایروگنس کا اظہار ہوتا ہے
  • خدا کے خلاف جتنی گفتگو ہے وہ لایعنی ہے ۔ مگر خدا ویسا بھی نہیں جیسا ہمارا ملا ہمیں بتا رہا ہے

4 thoughts on “بڑے بیگ صاحب”

  1. Ghulam Mustafa says:

    A Pioneer who thought that education is the only tool which leads us to success. Baig sahab is a great personality. He always encouraged youngsters to achieve their goals through education. He helped many poor people in every field just because of his contacts and due to his good behaviour. People always talk about baig sahab and call him “maseeha”. Aaj bhi apni chote se qasba mn agar hamari qaum mn thori bahut education ha to iska credit Ibrahim baig sahab ko jaata ha..Sir we salute you for your contribution and your connection with hometown.

  2. Elària Ælish says:

    میں نے ایک جگہ پڑھا تھا۔۔۔۔
    “If You want to be Powerful educate yourself”
    جس نے تعلیم کی اہمیت سمجھ لی وہ زندگی میں کچھ نہ کچھ ضرور کر جاتا ہۓ۔۔۔۔ بہت خوبصورت خاکہ لیا ہۓ آپ نے بیگ صاحب کا۔۔۔ بے لوث ہوکر کسی کی خدمت کرنا ایک بہت ہی غیر معمولی خاصیت ہۓ۔۔ایسی شخصیات بہت متا ثر کن ہوتی ہیں۔۔۔جو اپنا راستہ خود بناتی ہیں اور راستے میں انے والی رکاوٹوں پہ سر پکڑ کر بیٹھ نہیں جاتیں ۔۔۔ اپکی ویبسائٹ سے ایسی شخصیات کے بارے پڑھ کر اور جان کر بہت اچھا لگتا ہۓ اور انسپائریشن ملتی ہے۔۔۔آپکا قابل قدر لوگوں کے بارے انداز نظر انکی پہچان اور انکی شخصیت کی انتہائ جامع طریقے سے تصویر پیش کرنے کا ہنر کمال ہۓ۔۔۔۔۔۔ لکھتے
    رہیۓ۔
    ۔۔۔ خواہش رہۓ گی کبھی ہماری زات بھی اس قابل ہو جاۓ کہ آپکے قلم سے نکلنے والی خوبصورت تحریر کی چوائس بن سکے ۔۔۔

  3. Sami Ullah Saif says:

    Kahin dilli walon ka lehja hae kahin lacnow tapakta hae to kahin pe karachi ki jhalak nazar ati hae urdu k sath insaaf ni kiya gaya jahan pe darya e sindh ka zikr hae wahan urdu k rwaeti tareeqa kar se chaer chaar ki gai hae kahin bech main english k alfazz aa rhe hain mjhe yad hae aik dafa main apne urdu blog main amreeki ki bjae amreekan likha tha to ausaf k sub editor ne utha k mere samne phaar diya tha k agar urdu likh rhe ho to urdu likho struggle ki urdu itni mushkil to ni ilm e urooz wala chkr bhi ni lgta khair bht ache alfaz meri soch se bht baala tar

  4. Rimsha Hussain says:

    آپ کی بات “نا دیہات اجڈ اور جاہل لوگوں کی آماجگاہ ہے اور نا ہی شہر بے حیائ کی جگہ” نے بہت متاثر کیا ہے کیونکہ ہم میں سے بہت سارے لوگ جیسے کہ میں خود ، اس صورتحال کا سامنا کرتے ہیں اور اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔اور رہی بات بڑے بیگ صاحب کے الفاظ کی تو ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے “سر جی تسی گریٹ او”۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *