CREATIVE BITES, کاف کالم

حسن کش ڈی این اے

خوبصورتی اس کائنات میں ہمارا واحد مشترکہ اثاثہ ہے۔ پہاڑ ایشیائی اور امریکی ہو سکتے ہیں لیکن ان سے وابستہ خوبصورت نظاروں کا لطف ہر انسان اٹھا سکتا ہے۔ برسنے والے بادل اور ان کے بعد بننے والی رنگ برنگی قوس وقزح کو کون تقسیم کر پایا ہے۔ شام کے واپس جانے والے پرندوں کی قطار ہو کہ رات کو فلک پر پھیلے ہزارہا ستارے ۔ سب ہمیں یہ احساس دلاتے ہیں کہ خدا کی کائنات میں پھیلی ہوئی خوبصورتی ایک مشترکہ میراث ہے۔

بیچارگی میں مبتلا انسان گملے میں لگائے پودوں کو پانی تو لگا سکتا ہے لیکن اس پر اگے پھول کی خوشبو کو اپنے ہمسائے کے گھر جانے سے نہیں روک سکتا۔ ہمارے امراء اپنی علیحدہ سوسائیٹز تو کنسٹرکٹ کر سکتے ہیں ۔ لیکن ان سوسائیٹیز میں لگے درختوں پر کون سے پرندے اتریں گے اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے حکمران نہروں سے درخت کاٹ کر وہاں پلاسٹک سے بنے پودے اور گملے تو رکھوا سکتے ہیں ۔ لیکن ان پرندوں کو کنونس نہیں کرسکتے کہ وہ ادھر ہجرت کرکے آئیں اور بسیرا کریں۔ پرندے دور پار سے ہجرت کرکے اتریں گے تو کسی جھیل کنارے جہاں خوبصورتی کے زندہ رنگ ہوں گے نہ کہ تصنع اور بناوٹ۔ انسان بیچارہ اس لیے ہے کہ وہ خود کو دھوکہ دینے میں کتنا ماہر ہوگیا ہے۔ دریا کنارے درختوں کے جنگل کاٹ کر پتھر اور بجری کے پہاڑ نما سپر بند بنا کر کہتا ہے کہ انسان محفوظ ہوگئے ہیں۔ اور اس ٹھیکیدارانہ کوشش سے ہزاروں پرندون کا مسکن تباہ ہوا اس کا کیا ؟ اور پرندے بھی چھوڑ گئے۔ تمھاری اس اربوں کئ ڈویلپمنٹ کو ایک ننھی سی چڑیا بھی اہمیت نہیں دیتی۔ کبھی دیکھا ہے کہ بجری اور کنکریٹ پر چڑیا نے گھونسلے بنائے ہوں ؟ کبھی دیکھا ہے کہ کنکریٹ کے جنگل میں آکر کوئل بولی ہو ؟ جب ہم کڑوڑوں خرچ کرکے ایک چڑیا کو کنونس نہیں کرسکتے ، ایک کوئل کا گانا نہیں سن سکتے تو کتنے گھاٹے کا سودا ہم کر رہے ہیں۔

اور ہر طرف پھیلی ہماری بیچارگی۔ دکان ہو یا مکان ۔ درختوں ، پودوں ، پھولوں اور پرندوں سے خالی۔ کیوں آئے یہ سب ہمارے پاس۔ جب ہم خوبصورتی سے کتنے دور جا چکے ہیں۔ جب ہمارے ڈی این اے ہی خوبصورتی خور قسم کا ہوچکا ہے۔ ہم جہاں کہیں کوئی حسن کو پھلتا پھولتا دیکھتے ہیں تو ہمیں عجیب سی مروڑ پڑ جاتی ہے۔ ارے یہ خوبصورتی کی نشانی کیسی۔ اپنی پوری قوت سے اس کو مٹانے پر تل جاتے ہیں۔ کہیں یہ خوبصورتی کا یہ پہلو اتنا پل بڑھ نہ جائے جس میں ہماری بدصورتی واضح نظر آئے۔ ہمارے پارکس چرسیوں کی آماجگاہ، ہماری خوبصورت سرکاری کالونیاں بھوت بنگلے، ہماری نہریں درختوں سے خالی، ہماری مساجد ماربل اور مولوی سے مزین، ہمارے شہر دھواں اور دھول کی فیکٹریاں، ہمارے دیہاتوں کے گرد سیوریج کا پانی طواف کرے، اور ہمارے بیشتر سرکاری ادارے خشک سالی کے مناظر۔ اب یہ سب ایسے ملک میں جہاں پانی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہو، جہاں رہنے والے مسلمان دن میں پانچ بار مسجد جاتے ہوں، اور جن کے مذھب میں صفائی نصف ایمان ہو، اور جہاں آدھے سے زیادہ آبادی دیہات میں رہتی ہو جو فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

کہنے کو تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اس درجہ بدصورتی کے ماحول میں جینے کو۔ ہم اپنے ملک سے محبت نہیں کرتےیا ہماری اشرافیہ کرپٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے بلکہ اپنا گریبان نہیں پکڑتے جو سب سے مشکل کام ہے۔ کہ ہم سب اب ایک حسن کش ڈی این اے رکھتے ہیں۔ ہم سب خوبصورتی کو انجوائے کرنے کی بجائے اسے ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہماری جمالییاتی حس میں میوتٹیشن کا عمل وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ ہم ہر لمحہ ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں خوبصورتی ایک بوجھ اور خوبصورت زہن ایک کمیابی ہوگی۔ اب ہمارا شہری گھر بناتے ہوئے پرندوں کا نہیں سوچتا۔ اب ہماراکسان بڑھتے ہوئے درخت کو دیکھ کر یہ نہیں خیال دل میں لاتا کہ کوئل آئے گی اور میں اس کے ساتھ ریاض کروں گا، بلکی وہ یہ سوچتا ہے کہ کب یہ بڑا ہو اور میں اس کو کاٹ کر اس کی لکڑی مارکیٹ میں بیچ آوں۔ اب ہمارے بچے تتلیؤں کی تلاش میں فصلوں میں نہیں جاتے۔ اب ہمارے بزرگ شام کو نہر کنارے پرندوں کی بولیاں سننے نہیں جاتے۔

ہم حسن کی توسیع نہیں کرتے۔ بلکہ حسن کش ہو چکے ہیں۔ اب ہمارا سفر بدصورتی میں کمال حاصل کرنا ہے۔ اور اس سفر میں کتنے حسیں زہن ہم کھوئے جارہے ہیں۔ اور بدصورتی کے بیج بوئے جارہے ہیں۔

قدرت حسن پر اجارہ داری نہیں کرنے دیتی۔ تو ہم نے قدرت کو ویسے چیلنج کردیا ہے جیسے کبھی شیطان نے کیا تھا۔ کہ میں ایک اور دنیا بناؤں گا جو وہ نہیں ہوگی جو تو نے تخلیق کی ہے خدا۔۔۔ اور آج ہم نے بھی بدصورتی، بد تہذیبی، پھوہڑ پن کی ایک الگ سے دنیا بنائی ہے۔ ویلکم ٹو دس نیو اگلی لینڈ۔

11 thoughts on “حسن کش ڈی این اے”

  1. Sami Ullah Saif says:

    Darust frmaya

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ سمیع اللہ سیف
      آپ ایک بازوق انسان ہیں۔

  2. Saddam Hussain says:

    Great sir g

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ صدام حسین۔
      آپ کے زوق کے لیے ہے یہ تحریر۔

  3. Elària Ælish says:

    بس اب لوگ کبھی کبھار خوبصورتی دیکھنے ایسے مقامات پہ
    چلےجاتے ہیں جنکی خوبصورتی اور تازگی ختم کرنا کسی حد تک انکے بس میں نیں ہوتی اور دو چار دن کسی ترو تازہ جگہ پر گزار کر وہ مطمئن ہو جاتے ہیں اور پھر سے اپنی مشینی زندگی میں کھو جاتے ہیں ۔۔ہم وہ نسل ہیں جو اپنے قریب تر خوبصورتی کو دیکھنے سے قاصر ہیں اور اس خوبصورتی کو بد صورتی میں تبدیل کرنے میں ماہر ہیں ۔ہم وہ نسل ہیں جسے ہمیشہ دور دراز کی چیز ہیی کشش کرتی ہۓ جو ہماری پہنچ سے بھی دور ہوتی ہۓ اور اسی خوبصورتی کی نا مراد خواہش لیۓ پوری زندگی گزار دیتے ہیں ۔۔چاہۓ وہ خوبصورتی جس قسم کی بھی ہو ۔۔ مجھے لگتا ہۓ یہ تمام تر بدصورت نما
    خوبیاں بھی ہمیں وراثت میں ایک عجیب و غریب تحفے کی طور پر ملی ہیں۔

    1. M Usama Hussain says:

      یسین بھائی آپکی چڑیا کی آواز

      اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے

      کیا زمانہ ہےکہ بس انسانوں سے ڈر لگتا ہے

      1. Yaseen Baig says:

        بہت خوب اسامہ حسین۔
        آپ کے اشعار نے صحیح ترجمانی کی ہے چڑیا کے جذبات کی۔

    2. Yaseen Baig says:

      شکریہ الیریا
      ہم بہت ساری اور چیزوں کے علاوہ خوبصورتی کا شعور بھی اپنے والدین وار معاشرے سے انحیرٹ کرتے ہیں۔
      اب اپنی حالت زار کا گلا کریں تو کس سے۔

  4. Rimsha Hussain says:

    قدرتی خوبصورتی اس کائنات کا انمول تحفہ ہے۔لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ بجاے اس میں اضافہ ہونے کے بتدریج کمی آتی جا رہی ہے۔اور مجھے حضرت انسان کی نفسیات آج تک سمجھ میں نہیں آئ کہ ایک طرف مصنوعی فارم بنا کر مچھلیاں پالنے کو فروغ دے رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے قدرتی آبی مساکن کو تباہ کر رہے ہیں۔ایک طرف پانی کو صاف کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں دوسری طرف خوبصورت جھیلوں اور نالوں میں کوڑا کر کٹ اور زہریلے مواد بہا رہے ہیں۔اس میں سب سے بڑا ہاتھ سیاحوں کا ہے یہ الگ بات ہے کہ مقامی لوگ بھی اس سے مستثنی نہیں ہیں۔پاکستان کے کسی بھی تفریحی مقام کا دورہ کر کے دیکھ لیں خوبصورت مناظر کے اتنے کم عرصہ میں اس طرح پرخچے اڑا دیئے جاتے ہیں کی دوسری بار جانے پر یوں محسوس ہوتا ہےشائد غلط جگہ پر آگئے ہوں۔مری اور اس کے مضافات اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قدرتی مقامات کی حفاظت کے لیے (نام نہاد اصول پہلے سے موجود ہیں) بناے گئے اصولوں پر سختی س عمل درآمد کروایا جاے ورنہ اسی حسن کش ڈی این اے کی بدولت یہ قدرتی حسن ہماری اگلی نسل کو صرف تصویروں میں دیکھنے کو ملے گا۔

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ رمشا حسین
      آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ ہم بحثیت قوم ایک گندگی پسند رجحان کی طرف جارہے ہیں۔

      1. Siddique Anjum says:

        محبت اور خوبصورتی کے جمالیاتی سنگم کا تسکین آفرین بیان قابلِ تعریف ہے. لیکن یہ موضوع ایسا وسیع اور اس قدر دقیق ہے کہ تشنہ کامی قاری اور لکھاری کا مقدر بن جاتی ہے. گزارش ہے کہ ایک مضمون اس آفاقی حقیقت کے ساتھ منسلک درد کے معجزات پر بھی گوش گزار کریں. اس درد کی ذات شناسی اور آگے چل کر کائنات شناسی میں رہنمائی پر اپنے عالمانہ تاثرات کا اظہار کریں. شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *