کاف کالم

لایعنی ازم

زندگی کو پڑھنا شائد دلچسپ نا ہو بہت سارے لوگوں کے لیے۔ لیکن ایک دلچسپ زندگی ہم میں سے ہر کوئی گزارنا چا ہتا ہے۔

اب یہ جو دلچسپی ہے بڑی نازوالی محبوبہ واقع ہوئی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے گزارتے لمحوں پر تھوڑا غور کریں تو شائد ایک حقیقت ہمیں آشکار ہو کہ ہم اپنا زیادہ تر وقت بے مقصد سی مصروفیات میں صرف کرتے ہیں۔ دن میں کتنی دفعہ ہم فیسبک کا طواف کرتے ہیں۔ ایسی پوسٹس کو بار بار دیکھتے ہیں جہاں پر ہماری تعریف میں کوئی جملہ پایا جاتا ہو۔ اس طرح ہم میں سے بہت سے لوگ صبح کے وقت ایسے تیار ہوکے گھر سے نکلتے ہیں جیسے آج کا دن کوئی خاص ہو۔ ہم اپنی عام سی زندگیوں میں بہت ساری ابسرڈ چیزیں کرتے رہتے ہیں اس خاموش آواز کے ردعمل میں جو ہمیں روز یاد دہانی کراتی رہتی ہے کہ ہم تو ایک خاص شخص ہیں اور کتنے فیصلے ہیں جن کے لیے ہم ناگزیر ہیں۔

ایک بچہ اگر ایسی کیفیت سے گزر رہا ہو تو کوئی مزائقہ نہیں۔ وہ تو پھر بھی بچہ ہے۔ ابھی زندگی کو ایکسپلور کر رہا ہے۔ لیکن کیا جب بچے بڑے ہو جائے تو وہ اپنے خاص ہونے کے تصور کو ترک کردیں ؟ کیا جو ادھیڑ عمر ہیں ان کو اپنے اندر کے بچے کو مار دینا چاہیے ؟ کیا خاص ہونے کا تصور اور ہمارے اندر ایک پیہم نغمہ جو ہمیں خاص ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے وہ ہمیں گرو کرنے سے روکتا ہے ؟ جب ہم ہیں ہی خاص تو عام زندگی کا شعور کیسے ہو ہمیں ؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جو ایک سوچنے والے زہن میں رواں رہتے ہیں۔ خیر یہ خاص ہونے والا موضوع کسی اور وقت کے لیے رکھ چھورتے ہیں۔ ابھی ہم واپس آتے ہیں لایعنی ازم پر۔

اب تضاد ملاحظہ کیجے۔ ہم میں سے ہر ایک خاص ہے لیکن زندگی اپنی کیفیت میں عام ہے۔ جس سے ملو خواب اوڑھے ملے گا۔ اور جب تعبیر دیکھو تو وحشت ہوتی ہے اس دنیا سے۔ ہر روح محبت کی تلاش میں ہے۔ مگر دنیا نفرت اور تعصب کی زد میں۔ علم سپیریئر ہے مگر طاقت کے آگے اپاہج۔ دولت کی دنیا ہی الگ ہے۔ ہم حادثات در حادثات کے بعد ایک دلچسپ دنیا بن چکے ہیں۔ ایک ایسی دلچسپ دنیا جس میں ہر چیز ہے مگر دلچسپی کا کچھ خاص نہیں۔ اب دیکھے ہمارا مذہبی طبقہ کہتا ہے کہ دنیا تو دار الامتحان ہے۔ اصل جگہ تو اس کے بعد آنے والی دنیا ہے۔ اگر ساری دلچسپیاں آگے ہیں تو پھر یہ دنیا بڑی پھیکی ہوئی نا؟ ویسے بھی امتحان کس کو دلچسپ لگا آج تک ؟ ہمارا فلسفی کہتا ہے کہ ہم تو بس خود کی تلاش میں جی رہےہوتے ہیں۔ اور اس جینے کے عمل میں اپنے ماحول کو اوڑھ رکھا ہوتا ہے ہم نے۔ ہمارے خواب اور ہماری زندگی کے عزائم بس اس وقت اور جغرافیہ تک محدود ہیں جس میں ہم زندہ ہیں۔ اگر اتنی سی ہماری اوقات ہے پھر تو خود کی تلاش ایک صبر آزما کام ہوا نا ؟ ایک حصہ زندگی اپنا جغرافیہ سمجھنے میں اورایک حصہ زندگی اپنا قافیہ سمجھنے میں گزر جائے۔ پھر بچتا کیا ہے دوستو

پتا ہے مجھے کیا لگتا ہے۔ ہم سب نا ایک مزے کے ڈیزائن میں زندہ ہیں۔ ہم میں سے جو سمجھ بوجھ والے ہیں یا وہ جن کے ہاتھ میں زندگی گھمانے والا ہتھیار ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کیسی لایعنی قسم کی زندگی ہو چکی ہے ہماری۔ لیکن وہ ہم سے شیئر نہیں کرتے۔ ہم میں سے اکثریت ، بشمول میں، اس لایعنی ازم کے پیروکار ہو چکے ہیں۔ اب ہم وہ سب کر رہے ہیں جس کا کوئی مقصد ہی نہیں۔ اچھا مجھے یہ بتائیں کہ سافٹ درنکس پی کر مجھے زندگی کے کونسے آفاقی ذائقوں سے آشنائی ہوتی ہے ؟ فیسبک پر آدھا دن گزار کر اور ہزار دو ہزار دوست بنا کر میں کونسا گیان حاصل کروں گا ؟ اپنے وقت کا بہترین حصہ موبائل پر بے مصرف گفتگو میں صرف کرے مجھے کونسی روحانی مسرت حاصل ہوگی ؟ ایک خاص طرح کا فیشن زدہ لباس زیب تن کرکے میرا رتبہ اپنے ہم عصروں میں کتنا بلند ہوگا ؟ دن میں کافی حصہ مولویوں یا سلف ہیلپ گرؤں کی تقاریر سن کر میرے اند کونسی صلاحیت میں اضافہ ہوگا ؟ اپنے سکول جاتے بچوں کو ان کے اسباق رٹواکر میں ان کے زہن کی کتنی گروتھ کروں گا ؟ یا دن کا ایک بڑا حصہ بریکنگ نیوز سن سن کر مجھے کائنات کی کونسی آفاقی حقیقتوں کا ادراک ہوگا ؟

اس جیسی بے تحاشہ لایعنی سرگرمیاں میں روزانہ کرتا ہوں۔ اور ان سب سے اوپر میری خواہشیں اور خواب۔ معاشرے کو بدلنے کے خواب، ایک بڑا انسان بننے کے خواب، طاقت کے حصول کی خواہشیں۔ برٹرینڈ رسل کبھی کبھی بلکل صیحیح معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی بہتر انسان بننا نہیں چاہتا بلکہ ایک ایسا طاقتور انسان بننا چاہتا ہے کہ وہ اپنے ہمسائےکو دبا سکے ۔ ہم میں سے غالب اکثریت کی شخصیت اپنے ماحول کا ردعمل ہوتی ہے۔ تو جب ماحول ہی لایعنی ازم سے بھر پور ہو تو کیسی شخصیت وجود میں آئے گی اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

9 thoughts on “لایعنی ازم”

  1. Abdul rasheed says:

    age 2 kism ki hay physical growth based age and 2 ELMI, Fekri age. you have confused two things together, bhut se loog age main ziyda laken elmo or fikri lehaz se bhuy baby hotay hain vice versa.

    beghair taleem terbiyat ka NASSAL jo krahi hy woh uski MASRUFIAAT HAIN app usko jo word ja jama pehnaa dain i.e Laa Yanism etc.

    Insaan ki sexual oar hunger ki JIBALLAT ka elava aik aor bhi JIBALLAT hy woh hy EHSAAS E BARTARY (EDLAR) .esmain i think pehlay daur main insaan physical strength show kerkay apni jiballat ki taskeen krta tha ub ELMI BETARY show krkay apni taskeen krne daur main entered ho chuka hy yeh donun level per hota hy individual and collective level.

    overall good efforts for creative writing along with apology in advance my comments might be relevant or irrelevant

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ رشید
      لایعنی ازم میں اپنے معاشرے میں پائے جانے والے دو رویوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔
      پہلا کنزیومرزم کی بڑھتی ہوئی لہر جو ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ہم بے تحاشہ اور بے مقصد چیزیں، خیالات، اور اشیا کنزیوم کررہے ہیں۔ فیبک کی طرف اشارہ اسی لیے تھا۔
      دوسرا مقصد ایک زینی اور فکری بحران کا طرف بھی اشارہ تھا کہ ہم جو کررہے ہیں وہ بہت ساری کیفیتوں میں ایک بے مقصد ایکسرسائز کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

  2. Elària Ælish says:

    ہاں ہم لوگوں کے خواب تو آسمان کو چھو رہۓ ہوتے ہی لیکن عملی زندگی میں ہم اپنا سارا وقت ایسی فضول سر گرمیوں میں گزار دیتے ہیں ۔اور ہمیں در اصل لگتا یہ یۓ کہ مستقبل میں ہم اتنی با اثراور رعب دار شخصیت بنیں گیں کہ لوگ ہماری زندگیوں کو فالو کریں گی وہ ہم سے متا ثر ہونگیں ۔اور ہم وہ مقام وہ شہرت حاصل کر لیں گیں جس کے بچپن سے ہی ہم لوگوں نے خواب بن رکھے ہوتے ہیں۔مجھے تو اپنے زہن
    کی خوش فہمی اور اطمنان کی سمجھ نہیں آتی کہ جس زیادہ فوقس حال کو چھوڑ کے آنے والے وقت میں زیادہ ہے ۔ جس وقت کی گارنٹی نہیں کہ پتہ نہیں آۓ گا بھی یہ نہیں۔۔۔ اصل میں تلخ حقیقت یہ ہۓ ہم یا تو اپنے مستقبل میں جیتے ہیں یا پھر ماضی میں۔۔ ہمارا حال سے دھیان ہٹ گیا ہۓ کہ حال میں ہم کتنے با اثر اور دبنگ ہیں۔ حال میں اپنی شخصیت پہ نظر دوڑائ جاۓ تو مجھ سمیت اکثر لوگوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہم عملی طور پر کتنے ڈر پوک اور بزدل ہیں ہم تو اپنے ارد گرد موجود چھوٹی سے چھوٹی برائ پر بھی آواز اٹھانے کے قبل نیں ہیں جہاں ہمیں پتہ ہوتا ہۓ کچھ غلط ہو رہا ہۓ جس جس جگہ ہمیں یہ بھی یقین ہوتا ہۓ کہ ہم میں سے کسی ایک فرد کے آواز اٹھانے پر ہم ایک گروہ کو ہم اواز بنا سکتے ہیں برائ کو ختم کر سکتے ہیں بس ہمت اور بہادری کی ضرورت ہوتی ہۓ لیکن یہ ہمت لائیں کہاں سے؟ اور ہم وہاں بھی برے فخر سے چپ رہتے ہیں اور جو کچھ غلط ہو رہا ہوتا ہۓ اس کا خود بھی حصہ بنے رہتے ہیں اس ڈر سے کہ کہیں ہماری ڈگری نا متاثر ہو ۔کہیں ہمارے سٹیٹس اور سکون میں نا کمی آ جاۓ کہیں ہمارا نا نام آ جاۓ تو جو جیسا چل رہا ہۓ سکون سے چلنے دیں ہمارا کیا جاتا ہۓ ؟ ۔۔ مجھے یہاں پر صرف ایک بات الجھن میں ڈال دیتی ہۓ کہ معاشرہ پھر کس طرف جاۓ گا ؟ جب کہ فرد فرد کو صرف اپنی پڑی ہوئ ہۓ ۔۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہۓ جب ہمارا اپنے حال میں یہ رویہ ہۓ تو مستقبل میں کونسے جھنڈے گاڑ دیں گیں ؟ مستقبل میں ایسی کونسی جادو کی چھڑی ہمارے ہاتھ آ جاۓ گی کہ ہم ایک کمال شخصیت کہلاۓ جائیں گیں ؟ جب کہ شروع سے ہی ہم نے ایسا کوئ بیج نیں بویا اپنی شخصیت میں ؟ تو جو کیلیں ہماری شخصیت میں اہستہ اہستہ اپنی بنیاد یں پکی کر چکی ہیں انہیں مستقبل میں اتار پھیکنا اتنا آسان ہو گا؟ ؟

    1. Yaseen Baig says:

      بہت شکریہ الیریا
      آپ نے خاصی محنت سے کمنٹ کیا ہے اس پوسٹ پر۔
      ایک مشاہدہ جو آپ نے کیا ہے کہ ہم حال میں زندہ نہیں رہ سکتے بلکہ یا تو ماضی میں زندہ رہیں گے یا پھر مستقبل میں۔ میرے خیال میں آپ نے لا یعنی ازم کو جان لیا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ معاشرہ فضولیات میں اس لیے الجھا ہوا ہے کہ حال میں کرنے کو کچھ نہیں ہے ہمارے لوگوں کے پاس۔
      اور حال میں جینا سب سے زیادہ مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اور ہم حال کو اپنی انڈلجنس میں گزار دیتے ہیں۔

  3. Elària Ælish says:

    تو بات صرف یہاں نہیں ختم ہوتی۔۔۔ اپکی بہت ساری باتوں سے اتفاق ہۓ مان لیتے ہیں فیس بک پر فضول تواف سے کچھ ہاتھ نہیں آتاھ مگر ہم ہر چیز سے منہ کیسے موڑ سکتے ہیں ؟
    اگر سب کچھ فضول ہۓ تو ؟ ہم صوفی کو سننا چھوڑ دیں ، ہم سیلف ہیلپ گرؤں کو سننا چھوڑ دی ، ہم بچوں کو پڑھانا چھوڑ دیں ، ہم مولویوں کو سننا چھوڑ دیں ، ہم مختلف لوگو سے بات کرنا چھوڑ دیں ، ہم نیوز کو چھوڑ دیں ، ہم خود بولنا چھوڑ دیں تو ہم کیا کریں پھر خود کو ایک اندھیری کوٹھڑی میں بند کر دیں کہ سب فضول ہۓ ؟ ۔۔ تب ہم کیسے گرو کریں گیں ؟ مولوی جو کہے رہا ہۓ اگر ہم اسے نہیں سنے گیں تو ہم میں کسی بھی چیز کی صیح کھوج کا ری ایکشن کیسے پیدا ہوگا کہ جو وہ کہے رہا ہۓ صیح ہۓ یا غلط؟ اچھا جو سیلف ہیلپ گرؤ ر ہوتے ہیں بعض لوگوں کے زندگی کے تجربات جڑے ہوتے ہیں مان لیا ہماری زندگی تبدیل نہیں ہوگی اس سے لیکن ہو سکتا ہۓ ہم اس تجربے سے کوئ نہ کوئ ایسی بات پک کر لیں جو زندگی کے کسی مقام پہ ہمیں کوئ بھی صیح فیصلہ کرنے میں مدد دے جاۓ ؟ ، اچھا جو بچہ سکول نہیں جا رہا اسے سبق رٹوا کر سکول بھیج دیا جاۓ ہو سکتا آگے جا کہ اسے اپریسیشن مل جاۓ اس کے لۓ تالیاں بجیں اور وہ اس اپریسئیشن سے مٹا ثر ہو کے مزید پڑھنے کی جستجو پالنے لگے ؟ کیا پھر ایسا مقام نیں آۓ گا کہ وہ رٹالگانے سے اگے نکل جاۓ ؟اور کل کو کم سے کم اپنی زندگی ہی اچھی جی جاۓ ؟ اور ہر مقام پہ ایسا تو نہیں ہوتا کوئ اچھالباس صرف بڑے عہدے پر فائز ہو کر ہی پہنا جاۓ ؟ اور نہ ایسا ہۓ کی اگر ہمارا بڑا رتبہ نہیں تو اچھا لباس ہماری توہین کروا دے گا ؟ ہو سکتا ہۓ اگر کوئ بندہ صبح اٹھ کر تیار ہو کر اچھا سا سوٹ پہن گھر سے نکلا ہۓ تو یہ اسکا شوق ہو ؟ وہ خود کو خوش اور خاص محسوس کرتا ہو ؟کیا شوق کسی خاص دن کے محتاج ہو سکتا ہیں ؟ اچھا ہم لوگوں سے گفتگو کرنا بند کر دیں کہ تو ہم کسی کی طرف کیسے متوجہ ہونگیں؟ اسکے دکھ درد کو کیسے سمجھیں گیں یا کوئ ہمیں کیسے سمجھے گا ؟ یا کسی سے بات کیے بغیر ہم اگلے کی طرف کیسے اٹریکٹ ہونگیں ؟ کیا زندگی ایسے گزر سکتی ہۓ ؟ہر چیز انٹر کنیکٹڈ ہۓ
    تو میرا پوئنٹ یہ ہۓ ہم ہر چیز میں کیڑے نکا ل کر اسے بے معنی نہیں قرار دے سکتے ۔۔ ہر چیز فضول ارو بلکل بے معنی نہیں ہوتی ۔۔۔ چیزوں کے اگر نیگٹو پہلو ہوتے ہیں تو انکے پوزیٹو پہلو بھی ضرور ہوتے ہیں ۔تو کیوں نہ ہر چیز کا ڈارک پہلو دیکھنے پر اکتفا کرنے کی بجاۓ انکے روشن پہلو پر بھی نظر ڈال کر اپنا زہنی توازن برقرار رکھا جاۓ ؟

    1. Elària Ælish says:

      باقی ہم خاص ہیں یا عام ہیں اس مر میں چاہوں گی کہ اپ اپنا نقطہ نظر تفصیل سی شئر کریں کسی دن۔

    2. Yaseen Baig says:

      شکریہ الیریا۔
      میرے خیال میں شائد میں اپنی بات کو واضح نہ کرپایا۔
      نےلایعنی ازم سے میں معاشرے میں پائی جانے والی بے تحاشہ خرچ کرنے کے رویہ کو تنقند کا نشانہ بنانا چاہ رہا تھا۔ جسے انگریزی میں کنزیوریزم کہتے ہیں۔ جدید معاشرہ ایک مائنڈلیس کنزیومرزم میں مببتلا ہے۔ ہم جیزوں کو کنزیوم کیے جارہے ہیں بغیر سوچے سمجھے۔ کبھی ہم نے غور کیا ہے یہ جو ہم سارا دن خبریں سنتے ہیں اس کا مقصد کیا ہے۔ تو ان ساری مثالوں کا مقصد اسی رویے کو ظاہر کرنا تھا۔

  4. Elària Ælish says:

    آپکے نظریات اپنی جگہ درست ہیں اپکے تجربات مجھ سے کہیں زیادہ ٹھوس اور اپکی ابزرویشن مجھ سے کہیں زیادہ جامع ہۓ میں ہمیشہ قدر کرتی ہوں آپکی ہر تحریر کی آپکی لکھنے کی کاوش کو دل سے سراہتی ہوں ۔۔ میں نے تصویر کا دوسرا رخ بیان کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کی ہۓ جو ہو سکتا درست ہو ، ہو سکتا درست نہ بھی ہو ۔۔ اگر میرے لفظوں سے کہیں کوئ انجانے میں کوتاہی ہو گئ ہو تو میری طرف سے معزرت۔۔۔

    1. Yaseen Baig says:

      مجھے آپ کے خیالات کی قدر ہے۔
      میری یہاں تحریروں کا مقصد اپنی علمی برتری ثابت کرنا نہیں۔ بلکہ ایک مکالمے کی فضا بنانی ہے جہاں ہر کوئی اپنی رائے دے سکے۔
      آپ بلاججھک اپنی رائے کا اظہار کریں۔
      آپ کی رائے اور اختلاف کا احترام ہوگا اس فورم پر۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *