سارا سال ایک باذوق سی کاہلی طاری رہتی ہے ہم پر ۔ زندگی کا تھوڑا بہت لطف ہم مرزا اسداللہ خان غالب کے اشعار سے کشید کرلیتے ہیں۔ باقی ‘سب مایہ ہے’ کی گردان میں مگن۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی کا پہیہ جب چل ہی رہا ہے تو اپنی ایفیشنسی دکھانا تھورا شوآف ہونا نہیں کیا ؟ جو خود بخود چل رہا ہے اسے سرکاری افسر کی طرح جھوٹ موٹ کا دکھیلنا کیسا۔ سرکاری ملازم تو بیچارہ روزی اور رولز کی قید میں ہے۔ ہمیں تو ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں۔
خیر سال کے گیارہ ماہ تو ہم ایسے تیسے کرکے گزار لیتے ہیں۔ دسمبر ہم پر بھاری ہوجاتا ہے۔ عشق کا چکر نہیں یار بھایئو! بس ذرا فلسفیانہ روح غالب آجاتی ہے۔ آخر زندگی کا بھی تو کوئی رخ ہونا چاہیے۔ کیسے کیسے لوگ نیو ایئر ریزولیوشن پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے سال کے تکمیل شدہ منصوبے شیئر کرتے رہتے ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں ہمیں بھی لگتا ہے کہ اپنی لائف کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہے ، دکھاوے کی حد تک ہی سہی۔ فیسبک اور واٹس ایپ کے سٹیٹس کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔ اب بندے کو اپنے سوشل سٹیٹس کو بھی تو مینٹین رکھنا ہوتا ہے نا۔ ایک ذرہ سی جان پر ظلم کیا کیا !! ۔
جب دسمبر کا جاڑا زور پکرتا ہے ۔ ہم خود کو مشغلہ منصوبہ بندی میں مصروف پاتے ہیں۔ آخر ہمارے بھی تو خواب ہیں نا۔ کافی دن تک ہم خود پر سنجیدگی طاری کرنے کی مشق کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کی کامیابیاں گنوا گنوا کر خود کو مہمیز دیتے رہتے ہیں۔ دیکھو کیسے کیسے لوگ سال رواں میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ کتنے ایسے ہیں جنہوں نے سگریٹ کے کش لگانے کے نئے طریقے سیکھ لیے ہیں۔ بہت سارے یار بیلیوں نے اپنے باس کو شیشے میں اتارنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ اب ان دوستوں کو دیکھو جو شادی شدہ ہونے کے باوجود خوش رہنے کا ہنر سیکھ گئے۔ ایسی کامیابیاں بھی پائیں کچھ خوش نصیبوں نے کہ ان کے خوش رہنے پر ان کی اپنی بیویاں جیلس ہوتی ہیں۔ اب ایسے یار بیلی بلکل دل کو نہیں بھاتے جو ایک ہی جست میں محبت کی کتنی منازل طے کرگئے۔ ایک ہم اور ہماری کاہلی۔ خدا پناہ۔
ایسی گونا گوں کامیابیوں سے جیلس ہو کر ہم بھی نکل پڑتے ہیں ڈائری لینے۔ خود کو کچھ دن آیسولیٹ کرنے کا تہیہ کرلیتے ہیں۔ مناسب مقدار میں نان ونفقہ کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ جس میں کافی ، خشک دودھ، سگریٹ کے پیک، انٹر نیٹ پیکیج، پرانی غزلوں کی لسٹ، حسرتوں کی گھٹڑی اور ایک سبک رفتار قلم۔ بس ایک آگ سی ہوتی ہے دل میں کہ زندگی کوکسی سمت میں لانا ہے۔ کوئی منصوبہ ایسا لانا ہے جو ہماری زندگی کا رخ ہی بدل دے۔ پرانی عادتوں کے حصار کو توڑ کر ایک نیا پن لانا ہے۔
ایسے وقتوں میں جب کوئی یار بیلی ہم سے مخاطب ہو تو ہم کنی کرالیتے ہیں۔ اب ہم زندگی کی منصوبہ بندی میں مصروف اور ادھر دیکھو ان صاحبان کو جو ہمیں اسی بے مقصد سی مصروفیت میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ روز صبح بیدار ہو کر ڈائری پر ایک عمودی لکیر کھینچ دیتے ہیں۔ ایک خانہ سال گزشتہ کی بے مصرف سی زندگی کا روزنامہ اور دوسرا خانہ سال نو کی بامقصد زندگی کا ترانہ۔ نئے نئے منصوبے تخیل سے کاغذ پر منتقل کرتے ہیں۔ اور اس ایکسرسائز دلبرانہ سے ایک دلی خوشی ملتی ہےاور اپنے اندر چھپے ناقد سے مخاطب ہوتے ہیں۔ دیکھو حضرت کیسے کیسے کارنامے ہم سے سرزد ہوں گے سال نو میں ۔ ہماری پرانی عادتیں خوفزدہ سی ہوجاتی ہیں۔ کہ ان بیچاریوں کا کیا ہوگا جب سب نیا ہوگا۔ ہم ایک ادائے شاہانہ سے جواب دیتے ہیں۔ تم سب ایک مجبور انارکلی کی مانند سال گزشتہ کی دیوار میں چنوائی جاؤ گی۔
نئی زندگی اور نئی کامیابیوں کا تصور ہی ہمیں لطف دیتا ہے۔ کہ کیسے سال نو میں کایا کلپ ہوگی اور ہم ایک وقت کے پہیے کو اپنی مرضی سے گھمائیں گے۔ اور درجہ بدرجہ ہم اپنی ڈائری کو مکمل کرلیتے ہیں۔ جب سال نو کا مکمل پلان کاغذ پر منتقل نہیں ہوتا ہمیں سکون نہیں ملتا۔ ایک ایک خواہش، ایک ایک منصوبہ لفظوں میں ڈھل کر بھلا سا لگتا ہے۔ دل کو تسکین ہوتی ہے کہ ہمارا اگلا سال اب ایک بے مقصد سی ایکسرسائز نہیں ہوگی اور ہم ہوں گے کامیاب۔
پھر ہم قرنطیہ سے باہر آتے ہیں۔ اپنی منصوبہ بندی کی ڈائری کو ایک مقفل دراز میں محفوظ کردیتے ہیں کہ کہیں ہمارے باکمال منصوبوں کو کسی بدنظرے کی نظر نہ لگ جائے۔ اب دنیا حاسدوں سے کبھی خالی تو نہیں رہی نا !! ۔