HUMOR, طنزومزاح, کاف کالم

چھوٹا بھائی

اپنے کالج کے دنوں میں ایک دوست کے گھر جانا ہوا۔ گپ شپ کے دوران دوست کے والد محترم تشریف لے آئے۔ بات چل پڑی کہ چھوٹا بھائی ہونے کے اپنے فائدے ہیں ۔ ہماری ساری بحث کو بزرگوار نے ایک ایرانی کہاوت کا حوالہ دے کر سمیٹا کہ

بندہ چاہے کتا ہو لیکن کسی کا چھوٹا بھائی نہ ہو۔

چھوٹا ہونا ہمارے جیسے جذباتی اورلوڈڈ معاشرے میں گالی سمجھا جاتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑوں کی غالب اکثریت ساری زندگی چھوٹے پن کے مرض کا شکار رہتی ہے۔ اور ادھر جس چھوٹے سے ملو وہ بڑا بننا چاہتا ہے۔ شایئد یہی زندگی کا کھیل ہے ہر کوئی اپنے کردار سے خوش نہیں ۔

اچھا امر واقعہ یہ ہے کہ نہ بڑے کو پتا ہے کہ وہ پہلے دنیا میں کیوں وارد ہوگیا اور نہ ہی چھوٹے کو خبر کہ وہ تولید کا آخری سٹروک کیوں ٹھہرا ۔  ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کی جس کو سپرم ٹرین پہلے مل گئ وہ پہلے منزل مقصود پر پہینچ گیا اور جو آخری ٹرین پکڑ پایا وہ اس آولادی سفر کا آخری مسافر ٹھرا۔ سا ئینس تو بالکل سیدھی ہے یارو۔ اور ہمارے بہت سارے یار بیلی جو گھر میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے ایک گھریلو مینارٹی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کے لیے سا ئینس میں ایک امید ہے۔  اب جب بڑی بھابھی ان کو آواز دے کر دہی لانے کا کہے تو بصد احترام کہ سکتے ہیں

سپرم ٹرین کا آخری مسافر ہوں            کوئی نوکر نہیں ہوں میں 

خیر اس نیم پڑھے لکھے معاشرے میں سائینس کس شمار قطار میں۔ گھر میں چھوٹے کو صحیح مقام نہ ملنے میں سائنیس کی ناسمجھی کے ساتھ ساتھ پالیٹکس بھی بہت ہے۔ ہم جیسے ہڈحرام جو حسن اتفاق سے بڑے بھائی کے روپ میں دنیا میں وارد ہوگئے اب اپنے پہلوٹی ہونے کا تفاخر ہر جگہ برقرار رکھتے ہیں۔ اور اپنے چھوٹے بھائیوں سے اکثر یوں ہم کلام ہوتے ہیں

دیکھو میرے پیارے بھائی ۔۔۔۔ ہم تو بڑے تھے، دکھ تو ہم نے جھیلے، ماٰں باپ کی جھڑکیں، جوتے اور گالیاں تو ہم پر واری گئیں۔  پدرانہ شفقت کی مشق مسلسل تو ہم پر ہوئی۔ آپ تو جب آئے سب ہموار تھا۔ ہمیں تو بائیک سکھانے والا کوئی نی تھا۔  چلو آپ کو بائیک چلانا سکھاتے ہیں۔ یہ راز جب کھلتا ہے کہ بڑے محترم اپنی زوجہ محترمہ کی سودا سلف منگوانے کی سپیڈ سے کھیچل ہوئے ہوتے ہیں۔ اور ہمیں اس کارخوار میں لبھا کر لے آتے ہیں۔

اب صورتحال ئہ ہے کہ بھابھی محترمہ کچن سے اپنے شوہرنامدار کو چند مروجہ گالیاں دیتی ہیں اور پھر زرا ٹون کم کرکے چھوٹے دیور کو مخاطب کرتی ہے جا میرے گڈو بازار سے بیس کا دہی تو لے آ۔۔۔ پتا نہیں کتنے گڈو روزانہ بڑے بھائیوں کی عزت کا بھرم رکھتے ہیں اور اس طرح بڑے بیچارے غیرمروجہ گالیوں سے بچ جاتے ہیں۔

اب چھوٹے بیچارے اس گھریلو سیاست کی پیچیدہ کاریوں سے تنگ آکر کبھی بول بھی لیں تو ہو طرف سے زبانی حملے ۔۔۔اچھا اب اس چونچے میں بھی زبان نکل آئی ہے۔ پھر ماں اپنے چھوٹے کی طرف داری کے لیے آگے بڑھے گی اور ایک بھرا ہوا گولہ ناپسندیدہ بہو پر داغ دے گی۔ بس پھر کیا گھر میں پھل جھڑیاں چلنے لگ گئیں۔ چھوٹا بیچارہ خود کو کوستا ہے کہ اس کی وجہ سے گھر میں ایویں آتش بازی ہو گئیں۔ ایسے واقعات سے چھوٹے میں بغاوت کرنے کا حوصلہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ بڑے بھا ئی مزے سے اس کھیل سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔

شاید اس لیے بڑے سیاست جبکہ چھوٹے اکثر وائیلنٹ قسم کی زندگی کی طرف جاتے ہیں۔ اب پتا نہیں یہ حسن اتفاق ہے یا حقیقت کہ جنوب میں ایک بہت ہی زورآور چھوٹو گینگ دریائے سندھ کے پانیوں پر راج کرتا ہے۔  سارے چھوٹوں نے بڑے بڑوں کے ظلم سے تنگ آکر ہتھیار اٹھالیے ہیں۔ ان کی اپنی دنیا ہے جہاں بڑوں کی کوئی جگہ نہیں۔ ارے بھلا یہ صرف جنگلوں، دریاوں تک نہیں محدود جہاں چھوٹوں نے اپنی علیحدہ دنیا بنائی ہو۔ اربن ایریاز میں بھی بڑے گینگ ہیں جہاں چھوٹے ھٹ مین بڑے بڑے کام کرتے ہیں اور بڑے بڑوں کا کام تمام کرتے ہیں۔

 اچھا بات تو کہیں اور چلی گئی۔ سارے چھوٹے ایسے باغی بھی نہیں بنتے۔ چھوٹے کی زندگی میں کچھ مزے بھی ہیں۔ عید پر اس کے کپڑے بہت بن جاتے ہیں۔ بہت جگہوں سے عیدی کی توقع وہ رکھ سکتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر چھوٹے کی گھر میں مانگ بہت بڑھ جاتی ہے جب ہر کوئی اسے فوٹو کھینچوانے کیلیے ڈھونڈھ رہا ہوتا ہے۔ ہاں نا اس کو تھوری بہت لیڈری کا موقعہ بھی مل جاتا ہے جب بھابھیاں اپنے سارے شریر بچے اس کی رہنمائی میں دے جاتی ہیں تاکہ وہ زرا سکون سے شاپنگ کرسکیں یا شادی پر آئی ہوئی اپنی پرانی سہیلیوں سے گپ لگا سکیں۔ اور چھوٹے کو مزے مزے کے کھانے بھی مل جاتے ہیں۔ کوفتے بڑی بھابھی دے رہی ہے تو چکن بریانی منجھلی بھابھی کی طرف سے آرہی ہے۔ امی بھی میٹھے میں کچھ نہ کچھ پکا لیتی ہے۔ اس لیے ہم نے اکثر چھوٹوں کی صحت خراب دیکھی ہے۔ چھوٹوں میں ایک بڑا طبقہ بسا اوقات معدیاتی الجھن کا شکار پایا جاتا ہے ہے جس کو ہمارے انگریزی دان دوست ٹمی کنفیوژن کا نام دیتے ہیں۔ اب اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ہم اپنے پیارے سے چھوٹوں سے کدورت رکھتے ہیں۔

9 thoughts on “چھوٹا بھائی”

  1. Rimsha Hussain says:

    💯 percent agree coz i am elder sis of three brothers 😄😄😄

  2. Elàriab Ælish says:

    Obviously ChoTa Huny k bary FaiDy Huty😂😂😂
    Ur haan chotOn ko parNy wali mar ko to ap Skip kr gay ..kabhi morawt me bara bhai chata lga deta Hy to kbhi Bahn soada salf na lany ki saza me apni man mani krti ur kabhi to amaa ji b bras parti hyn sb ka Moakkaf ek e huta choloo koi nii chotaa hy isy kaha beijtii feel hunii ur Qsmy huta va aisa kuch feel e naii huta chay jitni maar kha loo🤣🤣🤣

    1. Advocate naeem rana says:

      Beshak chota hony k jesy faidy hen aesy nuqsan b zayda hoty hen jesy k pahly bardy phir choty har kam me like shadi😜😜 pahly bardy ki phir choty ki or ye b haqeqat hy choton ko payar b milta hy sb ka maan sid leti hen aba kuch kahy to bhai kahy to bhabian side leti hen bahr hal har rishty ki har stag ki apni ahmiat hy apna maqam hy apna hi maza hy bas hamen os chez ka tajusus hota hy jo hmary pas ni hy bas or kuch ni …

  3. Sami Ullah Saif says:

    Hmmm impressive but some things are not always the same anyway keep it up dude Rimsha Hussain if you are Rimsha Khalid then i do agree if Hussain then lit bit controversy

  4. M Usama Hussain says:

    Comical
    But at weddings, the younger ones rarely get a lift. Yes, but their services are used to take care of the children.😂😂

  5. Rimsha Hussain says:

    Yup. I am Rimsha Hussain

  6. Muhammad Shafique Khalid says:

    Baig sb. You are also a chota Bhai of many big ones……😅

    1. Yaseen Baig says:

      Yes, Dr Sahab, we all are chotay in some ways.

    2. Yaseen Baig says:

      Dr sahab…you know chotay honay say bht dar lagta hae…..I fear a lot.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *