ذرا تصور تو کیجیے کہ اگر چینی کاغذ ایجاد نہ کرتے تو پاکستان میں سرکاری نوکر ہونا کتنا کٹھن ہوتا۔ استاد کی زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ اور ہمارے سرکاری دفاترکیسے ویران ہوتے۔ ہمیں زندگی بے مقصد محسوس ہوتی۔ اور ہمارے بزرگوار جو محکمہ جاتی فائلوں کو مقدس صحیفے گردانتے تھے کیسی بوریت میں اس جہان فانی سے گزر گئے ہوتے۔ بھلا ہو اس نفیس سفید کاغذ کا جس نے ہماری قومی زندگی میں رنگ بھر دیا ہے اور ہمارے بزرگوں کوغیر مروجہ بے راہ روی سے محفوظ رکھا۔
پاکستان اللہ کے فضل وکرم سے وسیع وعریض کاغذی افسروں کا ملک ہے جو ہمہ وقت قوم کے درد میں دفتری فائل پر آلتی پالتی مار کے بیٹھے رہنے کی مشقت میں طاق ہیں۔ اب وہ کیوں نہ بیٹھیں بھلا ؟ جب انہوں نے یہ راز پالیا کہ ایک کاغذ سے ہی ہے کار سرکار میں رنگ۔ جو بے وقوف یہ نقطہ سمجھنے میں سست واقع ہوئے ہیں وہ قوم کی کاغذانہ فلاح و بہبود میں کوی خاطر خواہ اضافہ نہیں کر پاتے۔ اس کو دیکھتے ہوئے ہمارے کچھ کاغذی دانشور دوستوں نے یہ تکرار پکڑ لی –لو بھلا جو کاغذی کاروائی میں یکتا نہیں وہ حقیقی زندگی میں کیسے چل پائے گا۔
اب اس سے یہ ہرگز مراد نہ لیا جائے کہ ہم کاغذی صلاحیتوں کے معترف نہیں۔ ارے بھا ئی لکھنا لکھانا ہی تو ہمیں جانور بھایئوں سے مختلف کرتا ہے۔ تو ہم کیوں اس ممتاز انسانی صفت پر تبراء کریں گے۔
پس تحریر: ایسے ملازم پیشہ دوست جو کاغذی کاروائ میں خود کو ہم پلہ نہیں سمجھتے اس تحریر کو وارننگ سمجھتے ہوئے براہ مہربانی اپنا ذاتی کاروبار شروع کریں