سارے روحانی سلسلوں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ بندے سارے خدا کے ہوتے ہیں ۔ مگر ہمارے خطہ ارض پر خدا کے بندوں کے علاوہ بہت سارے سردار کے بندے بھی پائے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو پولیس کے بندے ہوتے ہیں۔ گینگ کے بندے بھی کافی تعداد میں مل جاتے ہیں۔ پرانے وقتوں کا کچھ نہیں کہ سکتے مگر اب بفضل خدا بندوں کی گوناگوں اقسام مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
بندگی ایک مشکل مقام ہے۔ شاید جب ایسا کہا گیا اس وقت اشارہ آسمانی خدا کی طرف تھا۔ ورنہ بندگی تو ایک منافع بخش پیشہ ہے ہمارے مملکت خداداد میں۔ اور اس کی ایک منافع بخش شکل ہمارے دیہی علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ کسی ہوٹل یا چائے خانہ پر دوستوں کے ہمراہ ٹائم پاس کررہے ہوں ، بیٹھک پر یار بیلیوں کے ساتھ گپ لگا رہے ہوں، یا پھر حجام کے پاس زلف تراشی کے لیے موجود ہوں، آپ کو گودے دے بندوں جیسے الفاظ سے واسطہ ضرور پڑے گا۔ چائے خانہ کی گاؤ تکیہ لگی منجیوں سے لے کر فیسبک تک آپ کو گودے کے بندے مل جائیں گے۔
جو قارئین گودے سے ناواقف ہوں ان کے لیے عرض ہے کہ گودا ہمارے معاشرے میں بندہ پال شخصیت کا نام ہے ۔ اگر سمجھنے میں دشواری ہو تو آپ اس کو ایسے لے سکتے ہیں جیسے ایک مویشی پال ہوتا ہے جس کی زندگی مویشی پالنے، سدھانے، بیچنے اور زبح کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ ایسے ہی گودا بندہ پال ہوتاہے جس کا مصرف زندگی طرح طرح کے بندے پالنا، بدمعاش سے لے کر صحافی تک۔ گودہ ایک بندہ پرور، بندے کے دکھ درد، جزباتی اور نفسیاتی ضروریات کا خیال کرنے والا ایک سیاسی ناخدا۔ بالعموم ایک علاقے میں ایک سے ذیادہ گودے بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن گودہ گیری کی افزائش نے علاقہ میں چھوٹے بڑے کئی قسمی گودے پیدا کردیے ہیں۔
دیہی معاشرت میں مویشی پال معاشی سسٹم میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بعینہ بندہ پال گودا بھی سیاسی نظام میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ جیسے مویشی پال ایک خاص طرح کی نسل کو دوسری نسل پر ترجیح دیتا ہے۔ اس طرح بندہ پال گودے نے بھی نسلی بندے رکھے ہوتے ہیں۔ کچھ بندے جگھڑالو قسم کے ہوتے ہیں اور گودے کے لیے ہر قسم کا جگھڑا کرنے پر تیار۔ ایسی قسم کو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے کیونکہ جو شدت اور وحشت ایک جاہل بندہ فراہم کرسکتا ہے وہ علم زدہ شخص کا کام نہیں۔ بقول شخصے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کی کچھ جماعتیں پڑھ لینے کے بعد اچھے خاصے ڈیل ڈول والے بندے بزدل، کاہل اور زہنی الجھن جیسے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تو ضروریات کے حساب سے اس نسل کو تعلیم جیسی فضولیات سے دور رکھا جاتا ہے۔
ایک اور قسم نعرے لگانے والوں کی ہوتی ہے۔ یہ گودے کی کمپین کا ہراول دستہ ہوتا جن کا کام گودے کا نیک نام بلند کرنا ہوتا ہے ۔ الیکشن کے دوران اپنی وابستگی کا اظہار اپنے گلے پر مشقت کرکے کرتے ہیں۔ نت نئے نعرے تخلیق کرتے رہتے ہیں گودے کے پوسٹر لگواتے ہیں جس میں گودے کی چیدہ چیدہ فرشتہ صفت خصوصیات درج ہوتی ہیں۔ جو بندگی میں زرا اونچا مقام رکھتے ہیں وہ بڑے بڑے فلیکسز کا اہتمام کرتے ہیں جہاں گودہ کو مسیحا، ہمدرد، شرافت کا علمبردار، مخلص، نہ جھکنے والا نہ بکنے والا جیسے روح پرور خطابات سے مزین کیا ہوتا ہے۔ گھر کی دیواروں سے لے کر بائیک کی پشت تک گودے کی تصویری شخصیت چسپاں کی جاتی ہے۔
کچھ زرا گپی قسم کی نسل ہوتی ہے جو گودے کی ذات کی چیدہ چیدہ خصوصیات ہوٹلوں ، ڈھابوں ، بیٹھکوں اور میلے ٹھیلوں پر بیان کرتی نظر آتی ہے۔ یہ نسل دور جدید کے حساب سے خود کو اڈاپٹ کرتی رہتی ہے۔ ان میں سے اکثریت تعلیم یافتہ بھی ہے۔ اب یہ نسل فیسبک پر گودے کی تصاویر پر نت نئے کیپشن لکھ کر پھیلاتی رہتی ہے۔ اس پروموشن سے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد تو گودے تک یہ پیغام پہنچانا ہوتاہے کہ
دیوار تو دیوار ، چوراہے بھی نہ چھوڑے ہم نے فیسبک پر بھی چڑھادیے چڑھاوے ہم نے
دوسرا مقصد بندگی کے کیرئیر میں ترقی کی راہ ہموار کرنا بھی ہے۔ جس کا ایک اظہار ایسے ہو سکتا ہے کہ اب گودہ صاحب محفل میں ان کا نام لے کر شاباشی دیں گے۔ بہت سارے ایسے بھی ہیں جن کا تو نام بھی گودے کو یاد نہیں ہوپاتا عمر بھر ، تعریف تو دور کی بات۔ اب نام لے کر تعریف ہوجائے اس سے بڑا مرتبہ کیا ہے بندگی میں ارے بھائیو ؟
Elària Ælish says:
ہاں ایسا ہۓ لوگ ہیں جو زہنی طور پر غلام کر دۓ جاتے ہیں نہ انکے پاس اپنے لیۓ سو چنے کا وقت ہوتا ہۓ اور نہ عقل۔جاہلیت ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے عروج پر رہی ہۓ ایک بات بہت اچھی کی ہۓ آپ نے کم تعلیم انسان کو زہنی طور پر گھمنڈی اور بے وقوف بنا دیتی ہیں ۔اتنی تعلیم سے نا انکا زہین صحیح معنوں میں ڈیویلپ ہو پاتا ہۓ ۔ اور ناہی اس قابل ہوتا کہ وہ اپنے بارے صیح اور غلط میں فرق جان سکیں۔۔
Elària Ælish says:
لیکن اس بیوقوف اکثریت میں سے کسی کو یہ نیں سمجھ آتا کسی کا رتبہ اسکے دل سے کۓ گۓ لوگوں کی بھلائ کے عمل بڑھتا ہۓ نہ کہ جگہ جگہ اشتہار باز ی سے ہاں یہ پییسہ کمانے اور خود کا رعب دکھانے کے لیۓ روائیتی طور پر چلتا ہوا عمل ہو سکتا ہۓ
Yaseen Baig says:
شکریہ الیریا
آپ کی رائے ہمیشہ شستہ اور دلچسپ ہوتی ہے۔
Muhammad Rizwan says:
ٹویٹر پر ویسے بیبیاں پیش پیش ہیں۔
Yaseen Baig says:
شکریہ رضوان صاحب
آپ نے کافی دلچسپ نکتہ اٹھایا ہے۔
کسی اور تحریر کے لیے اسے لیے رکھ چھوڑتے ہیں۔
Rimsha Hussain says:
بہت مہربانی سر کیونکہ ہم میں سے اکثریت اس اصطلاح (گودے) سے نا واقف تھی😄😄😄۔
فی زمانہ گودے کا بندہ ہونا بیشتر لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے اور چند
ایک کا مشغلہ۔اول الذکر کا تعلق ایسے لوگوں سے ہوتا ہے جن کے پاس تعلیم نام کی چیز نہیں ہوتی یا پھر ڈگری جیب میں ڈال کر بے روزگار جوتیاں چٹخاہ رہے ہوتے ہیں اور گودے جیسے سوشل پیرا سائیٹس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنی ذہنی غلامی کا خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ اگر پھر بھی کسی کا ادھ مرا ضمیر ہلکی پھلکی سرزنش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو چند سکے ملنے پر ،پر سکون ہو جاتا ہے
موخر الذکر کا تعلق عوام الناس کی اس قسم سے ہے جو کچھ اور کر ہی نہیں سکتے۔ دوسرے لفظوں میں مفت خوری اور چمچہ گیری کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم سے کوسوں دور اور سہی غلط سے نا بلد ہوتے ہیں۔ہاتھ ہلا کر مشقت طلب کام کرنا موت کے مترادف ہوتا ہے۔اگر ایمانداری سے ان کا تجزیہ کیا جاے تو(چمچوں سے معذرت) اس سے زیادہ منافع بخش اور آرام طلب کوئ کام ان کے لیے ہو ہی نہیں سکتا۔
Yaseen Baig says:
شکریہ رمشا حسین
آپ نے کافی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔
آپ جیسے قاری سے میں سیکھتا ہوں۔
M Saleem Baig says:
“دیوار تو دیوار چوراہے بھی نہ چھوڑے ہم نے”
بہت کمال کا شعر ہے۔۔۔
Yaseen Baig says:
شکریہ محمد سلیم صاحب
آپ کی دلچسپی بہت اہم ہے اس فورم کو ایک بیتر فورم بنانے میں۔
M Usama Hussain says:
آپ کے آخری پیراگراف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک سرائیکی شعر عرض ہے۔
خیرات نہ ڈ ے پہچان تے کر ٹیڈے ڈیرے بیٹھا اک فقير ا ے
عرض اتنی ھے فقط جو ساڈا ناں چا گھن چار لوکاں وچ گودا
اساں منگی ٹیڈی کہڑی جاگیر اے
Yaseen Baig says:
شکریہ اسامہ حسین
آپ کے شعر نے ایک طرح سے اس بحث کو مکمل کردیا ہے جو میں نے شروع کئ تھی۔
آپ کی دلچسپی بہت اہم ہے اس فورم کو بیتر بنانے میں۔