کاف کالم

ذات کا پیٹرن

  مجھ سے میرا مکالمہ ہوا          مجھ سے  میری شناسائی نہ ہوئی

ہر چوک چوراہے پر یہ سننے کو مل جاتا ہے کہ دنیا بہت پیچیدہ۔ دنیا بہت الجھی ہوئی۔ ارے بھائی ہم کونسے سیدھے اور صاف۔ ہم اپنی ذات میں کم پیچیدہ ہیں کیا!! ایک چیز جس نے بہت تجسس میں رکھا اور آج تک پکڑائئ نہ دی وہ ہے اپنی ذات کا پیٹرن۔

آخر اپنا بھی تو کوئئ مدار ہوگا جس کے گرد اپنی مختصر سی زندگی طواف میں ہے۔ اس مدار کا محور کہاں ہے ؟ کہاں ہے وہ لکیر جو ہمارے پاؤں کے چلنے سے بنی ہے ؟ کہاں ہے وہ سایہ جو ہمارے گردش لیل ونہار سے منسلک ہے؟ ایسے کتنے سوالات ہیں جو ذہن کے دریا میں رواں دواں رہتے ہیں۔ آخر کہیں تو ہوں گے ہماری ذات کے اسرار ورموز۔

ایک چیز بہت دلچسپ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ جن کی ذات پیچیدہ نہیں یا پھر وہ پیچیدگیوں میں الجھے نہیں۔ جیسی زندگی ملی ، جہاں ملی اسے اکسپٹ کرلیا، اور زندگی کا کش لے لیا اور باقی سب دھواں سمجھ کے اڑادیا۔ ایویں کیا الجھتے رہنا وقت ارو ذات کی ناسمجھ آنے والی لہروں سے۔ اور ادھر ہم جیسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں آبیل مجھے مار۔ ایک آسان نظر زندگی کو پیچیدہ بنادینا۔

خیر اس سے کیا بھاگنا اور کیا گھبرانا۔ اب ذات کوئئ پورٹیبل چیز تو ہے نہیں کہ اتار کر رکھ دیں کہیں۔ جہاں جائیں گے یہ ساتھ ساتھ چلے گی۔ اس لیے ہم نے اب پریشان ہونا چھوڑدیا ہے۔ جس کے ساتھ ہردم ہوں اس سے مانوسیت تو ہوہی جاتی ہے۔ ارے ہاں اسی مانوسیت میں تو پیچیدگی بڑھتی جاتی ہے۔

    جتنا جانتا ہوں خود کو           حیراں ہوتا جاتا ہوں  

ذات کے پیٹرن کی کھوج ایک ذاتی سی کوشش کے سوا ہے کیا۔ یاران محفل میں کبھی کوئئ خیال آجائے جیسے۔ ایسے سفر کرتے ہوئے دل مچلے اور کوئئ گرہ کھل جائے جیسے۔ ایسے دریا کنارے صبح نور منظر میں ماضی کا کوئئ عقدہ کھل جائے ۔ کوئئ ٹائم فریم نہیں ہے، کوئئ وقت متعین نہیں ہے۔ کوششس سے خیالات گھڑے جاسکتے ہیں مگر ذہن کی سرزمیں پر اتارے نہیں جاسکتے۔ خود کو پڑھنے کا عمل نہیں آساں دوستو۔ کئی آگ کے دریا پار کرنے پڑتے ہیں۔ ادھر ایک اجنبی خیال اترا زہن کے ساحل پر اور ادھر ایک ڈر سے اڑ گئے شعور کے پرندے کتنے۔ اب یہ شعور بھی کتنی لاڈلی دنیا ہے۔ کبھی پالو تو کبھی ڈھونڈو۔ ہر رنگ میں ایک کوشش پیہم۔

پہلے پہل فریگمنٹس ہوتے ہیں۔ کوئی ایک خیال آکے گھونسلا بناتا ہے ۔ شعور کی کچھ راہیں ہم بھی لے کے چل رہے ہوتے ہیں۔ گھر سے، ماحول سے، سکول سے اور شائد ان دوستوں سے جو ہمارے ہم جولی رہے ہیں۔ کچھ حادثے ہوتے رہتے ہیں اور ان حادثات میں بہت کچھ بدلتا رہتا ہے۔ علم وشعور کی دنیا میں تجربات کی جھاگ بھی لگ جاتی ہے۔ بس ایسے ایسے ، آہستہ آہستہ ہم ایک سادہ روح سے ، ایک معصوم ذہن سے ایک پیچیدہ شخصیت میں بدل دیے جاتے ہیں۔

کیا المیہ پایا ہے ہم نے دوستو۔ جب ہم آسان ہوتے ہیں خود پر، ہماری ذات کو پیچیدہ کاری کی منزل کی راہ نہیں لگی ہوتی، ہماری روح معصوم ہے، ہم چھوٹے بچے ہیں ابھی تو اس وقت ساری دلچسپی اردگرد کی دنیا کی ہوتی ہے۔ سب خارج کا اچھا لگتا ہے۔ ایک تجسس ہوتا ہے باہر کی دنیا کو دیکھنے کا، جاننے کا ، جانچنے کا۔ خود کی آگہی نہیں ہوتی۔ جب باہر سے گھوم گھام کے ہم تھک جاتے ہیں ، تب پتا چلتا ہے ، بھائی ساری دلچسپیاں تو اپنے اندر ہیں۔ اور اس وقت ہم پیچیدہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ بہت پیچیدہ۔ اب پچھتائے کیا ہوت ، اب تو جینا ہے اسی ذات کے ساتھ۔ ، کتنے بھولے ہیں ہم یا بھر قدرت کتنی سمارٹ ہے۔ پہلے ہمیں آسان سے مشکل بناتی ہے، اور پھر کہتی ہے ارے بھائی اب اس مشکل کو آسان بنا ، ارے بھائئ اب اپنی ذات کی پیچیدہ گتھی خود سلجھا۔

اس سارے قصے میں ہم مصروف رہتے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ جنہوں نے اپنی بچپن کی معصومیت کو ذندہ رکھا ہوتا ہے کسی نہ کسی رنگ میں۔ وہ تو شائد جلدی ڈھونڈھ لیتے ہوں اپنی ذات کا پیٹرن۔ یا آسانی سے ذندگی کی راہ کا تعین کرلیتے ہوں۔ ہائے ہم جیسے کیا کریں جو اتنے الجھے ہیں کہ اب ذات کا سمجھنا ہی علم ہے۔

خیر جو بھی ہو، اس تلاش ذات کا بھی اپنا لطف ہے۔ خود سے ملنا، خود پر منکشف ہونا، خود کی نئی نئی جہتیں پانا اپنے تئیں ایک ایکسائٹمنٹ ہے۔ ایک الگ سرور ہے۔ پھر یہ جاننا کہ ذات پر چھینٹے کہاں کہاں سے پڑے ہیں۔ کس کس منظر نے اپنا اثر چھوڑا ہے۔ کون سا حادثہ ہے جس کا اثر روح تک ہے اور کون کون سے لوگ ہیں جو بس سرراہ میں ہی نظر سے اوجھل ہوگئے۔ اب یہ سب جاننا کیا کم ہے۔ اب خود کو جانکھنا ، تانکنا مزے کی چیز نہیں کیا۔ ارے بھائی اس کے علاوہ ذندگی ہے کیا بھلا ؟؟

2 thoughts on “ذات کا پیٹرن”

  1. Ghulam Mustafa says:

    ہے کچھ عجب معاملا درپیش
    ..عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

  2. Elària Ælish says:

    اپنی زات کو پہچاننا اسان نہیں بلکل آسان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ چند ایک عظیم ہستیاں ہی ہوتی ہیں جو اپنی زات کا ادراک کر لیتی ہیں ۔اور رہتی دنیا تک اپنا اثر چھوڑ جاتی ہیں ۔۔۔ لیکن اکثریت سے بھی زیادہ عوام کو کھانے پینے گھومنے اور روز مرہ کے کام کاج کے علااوہ تو اس بات کا احساس ہی نہں ہوتا کہ انکی بھی کوئ زا ت ہۓ۔۔۔۔ انکی زات کا بھی کوئ عظیم مقصد ہو سکتا ہۓ۔۔۔۔ انکی زات کا بھی
    But they all are just empty minded کوئ راز ہو
    سکتا ہۓ
    قا بل لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔۔۔
    اپنی زات کی کھوج میں رہنا بھی بہت بڑی بات ہو ہوتی ہۓ ۔۔میں آپکو آپکی اس کاوش اور قابل قدر سوچ کے لیے سراہے بنا رہۓ نہیں سکی
    ۔۔۔۔کوشش بر حق ہۓ۔۔۔ اپنی زات کے راز کو جاننے کی حس بھی کسی کسی میں ہوتی ہے جو کہ آپ میں ہۓ ۔۔۔ ۔۔۔ اللہ تعالی انہیں کامیابی سے ضرور ہمکنار کرتے ہیں جو اپنی منزل پانے کی سعی کرتے ہیں ۔۔۔ کوشش تو پھر بہت چھوٹا لفظ ہۓ ۔۔ کبھی اپنی زات بھی بہت الجھی ہوئ لگتی ہے ۔۔ہالانکہ ہم ابھی تک دنیا بھی نیں گھومے:)۔۔۔ نیک تمنائیں آپکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *