طنزومزاح, کاف کالم

کھڑکی کے اس پار

حقیقت کا ایک جہاں کھڑکی کے اس پار بھی ہے، مگر ہم اپنے کمرے میں پھیلی روشنی کو دنیا سمجھے بیٹھے ہیں

ناصر کاظمی بھی کہتا ہے

سو گئے لوگ اس حویلی کے         ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی 

تو ناصر کو بھی امید تھی کہ اگر کھڑکی کھلی ہے تو غم کیسا۔ راستہ تو ہے نا ہوا کا، روشنی کا۔ کیا وقت پایا ہے کہ رؤؤں یا پیٹوں جگر کو میں۔ ہر کوئی اپنے چار گز کے مکاں کو کل کائنات سمجھے ہے۔ دور پار کھڑکی کیا ہے کسی کو پرواہ نہیں۔ سیاسی مباحثہ ہے تو ہر کوئی مخالف کو اپنے مکاں میں لاکے چت کرنا چاہتا ہےدلیل کے کھلے میدان میں نہیں۔ ویسے مقامی کہاوت بھی کیا خوب ہے کہ گھر کا کتا بھی شیر ہوتا ہے۔ اب ایسا نہیں کہ اپنے لوگ بہادر نہیں۔ بہادری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے مگر چلتی صرف اپنے خیالات کی چار دیواری کے اندر، جس میں صاحب ایک گھٹن ذدہ روح کے ساتھ قید ہیں۔ باہر کی دنیا کیا ہے، کھڑکی کے باہر کیسا سبزہ ہے، موسم کے چال چلن کیا ہیں۔ ان سب سے اپنے شیروں کا کیا واسطہ۔

اب ہم خدا سے ناراض ہوں بھلا کہ ایسے وقت میں پیدا کیا جب تعصب کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ اگر کسی اور وقت میں پیدا کرتا تو ہم زیادہ مزے کی زندگی گزارتے کیا ؟ خیر وقت ہے کہ گزرے جارہاہے اور میرے وطن کے مکین تعصب میں نہارہے ہیں۔ خوش ہیں کہ چلو اپنا مکان ہے اور ہر ایک نے اسے شداد کی جنت سمجھ رکھا ہوا ہے۔ اب جنت تو ایک مثالی جگہ ہے وہاں کیسی تنقید ؟ وہاں بہتری کی گنجائش کہاں ؟ اور جنتیوں کو کیا ضرورت کہ وہ مکالمہ کریں یا اپنی جنت کی کھڑکی کے پار جھانک کے کھیں کی جنت کے باقی درجوں میں لوگ کیسی زندگی جیتے ہیں۔ ارےبھائی ادھر یہ چلن ہے کہ

           جو ہم سا نہ ہوا      بھلا وہ کوئی انساں ہوا ؟ 

اب اس جنت نما مکاں میں بھلا گنجائش بچتی ہے کہ ہم کھڑکی سے تانک جھانک کریں۔ حضرت آپ بھی بھولے ہو ۔

اچھا اب دلیل کھڑکی کے باہر ملتی ہے کیا ؟ نہیں بھائی کھڑکی کے باہر تو تازہ ہوا ملتی ہے ۔ اور تازہ ہوا کھانے کے بعد شائد کسی کو کچھ نیا سوجھ جائے۔ اچھا ایک اور دلچسپ چیز نہیں سمجھ آئی کہ گھر میں کھڑکی کا کوئی فنکشن نہیں ہے تو اسے ہماری تعمیرات میں ایک جزولازم کیوں سمجھا جاتا ہے ؟ اب اگر اپنی گھر میں لگی کھڑکی سے آنے والی تازہ ہوا اور روشنی کا مقصد ایک باپ اپنے بچوں کو نہیں سمجھاسکتا اسے چاہیے کہ اس فضول خرچی سے پرہیز کرے۔ اب جب ہم زندگی بھر سمجھ نہیں پاتے کہ کھڑکی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے کمرے کی چار دیواروں یا ہمارے گھر کی چاردیوادی کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے ۔ ارے یہ سبق تو ہم نے گھر سے ہی سیکھنا تھا اور جاننا تھا کہ ہر حقیقت کی چاردیواری میں بھی کئی ایسی کھڑکیاں ہوں گی جو نئئ حقیقتوں کی روشنی لائیں گی۔ لیکن وہ سبق تو شائد بچپن میں ہی کہیں رہ گیا۔ تو بہتر ہے کہ گھروں سے، دیواروں سے اور کمروں سے ہر وہ چیز نکال دی جائے جس سے تازہ ہوا اور روشنی کے آنے کا امکان ہو۔ ارے بھائی یہ نہ سمجھیے گا کہ ہم ایسے رائے تھونپ رہے ہیں۔ زرا ایک لمحہ اس فیسبک یا ٹوئٹر نامی سرزمین کا ہی دورہ کرلیں۔ ایسے لگے گا کہ زیادہ نفوس وہ ہیں جنہوں نے آج تک تازہ ہوا میں سانس نہ لیا ہو۔ میں تو تمام والدین سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے گھروں کو بنکر میں کنورٹ کرادیں۔ اب ان کے بچوں کا روشنی سے کیا لینا دینا۔

خیر کچھ والدین گھر میں کھڑکیاں لگواتو لیتے ہیں لیکن فیشن کے طور پر۔ محلے والوں پر رعب جھاڑنے کیلیے، خود کو نفاست پسند ظاہر کرنے کیلیے۔ لیکن اف ہے بچوں کو کھڑکی کے حقیقی فوائد سے آگاہ ہونے دیں۔ اب اگر بچوں کو پتا چل گیا کہ کھڑکی کے اس پار کیا ہے تو ان کی چوہدراہٹ کا کیا ہوگا۔ بس اب بچوں کی تربیت اسی طرح ہوئی کہ جو سامنے ہے وہی اصل ہے۔ اور میں ناگزیر۔

اب اس ماحول میں پلے بڑھے بچے کیوں مانیں گے کہ دنیا ان کے خیالات سے مختلف بھی ہوسکتی ہے یا دنیا میں ایک درجہ وسعت پائی جاتی ہے۔ یا حقائق کو دیکھنے کے کئی انداز ہوسکتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ ہمیں ہر وقت نئی سوچ کی ضرورت رہتی ہے کہ کہیں ہم خود کے اندر باسی نہ ہوجائیں۔ اب یہ نئی سوچ تو اس وقت آئے گی جب ہم کھڑکی کے اس پار کی دنیا بھی دیکھنا پسند کریں گے ۔ اب اس ملک کا کیا کہیں جہاں نئی سوچ تو نہیں آتی مگر نئی نسل آجاتی ہے یا پھر نئی سوچ کے نام سے نیا اخبار مارکیٹ میں۔

ناصر کاظمی کے مقطع سے ہی دل کو بہلاتے ہیں

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر                       غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی 

4 thoughts on “کھڑکی کے اس پار”

  1. Rimsha Hussain says:

    بجا فرمایا۔کھڑکی کا مقصد سمجھنا اور سمجھنا ، بچوں سے پہلے والدین کے لیے ضروری ہے۔ ان میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو شعوری طور پر ہی اپنے بچوں کو کھڑکی سے باہر جھانکنےنہیں دیتے دوسرے لفظوں میں باہر کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو صرف اس بات کو مد نظر رکھ کر بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں کہ معاشرے میں ان کو ذمہ دار اور باشعور والدین کے طور پر جانا جاے۔لیکن یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ آیا تعلیم ان کے سر کے اندر سے گزر رہی ہے یا سر کے اوپر سے۔مثال کے طور پر غیر نصابی سرگرمیوں میں شامل نہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔بات وہی کہ کچھ والدین گھروں میں کھڑکیاں لگواتےتو ضرور ہیں لیکن محض فیشن کے طور پر لیکن بچوں کو اس کا مقصد نہیں بتاتے دوسرے لفظوں میں اکثر اوقات وہ خود بھی نا واقف ہوتے ہیں۔

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ رمشا حسین
      آپ نے صیحیح تجزیہ کیا ہے۔ آپ کی رائے ہمیشیہ پختہ اور شستہ ہوتی ہے۔

  2. Elària Ælish says:

    Impressive 👌
    For most of the People guideline is very important we can’t ignore its Value …
    Ak point ye bh hu skta hy insan me itni aqal huni chahiey k wo khirki sy bahir dekhny ka khd idrak rakhta hu… Khrki sy bahir ki dunia ko dekhny ki hiss…
    Usk baraqs kuch log aisy huty hyn agr unhy khirki sy bahr dekhny ka Ishra dy bh dia jay agr unki enternal e ye lagan ni hugii kuch naya dekhny ki kuch nya seekhny ki to shyad phr ye ishara besood huga unk liy….

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ الیریا
      آپ نے کافی مثبت باتیں کی ہیں۔
      میں ہمیشہ بہت انجوائے کرتا ہوں آپکی طرف سے آنے والے فیڈبیک کو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *