کاف کالم

درد کنارے

درد کنارہ ہوتا ہے کیا ؟ اگر ہے بھی سہی تو درد قیدوبند کی چیز ہے کیا ؟

فطرت قید پسند تو نہیں۔ خوشیوں کی طرح درد بھی ایک آزاد لہر ہے۔ مٹی سے بنے ہمارے وجود کے سانچے کی حدود قیود ضرور ہیں۔ اردگرد کی سردی گرمی بھی ہمارے درد سہنے اور درد برتنے کی صلاحیت متعین کردیتی ہے کبھی کبھی۔ ہمارے لاشعور کے نامعلوم جزیروں سے جو لہریں ابھرتی ہیں وہ ہمیں بس یہی پیغام دے جاتی ہے ۔

کہ بہت کچھ ہے تجھ میں ایسا جسے تیری شناسائی نہیں۔

درد معلوم بھی ہے اور نامعلوم کا چولہ بھی پہن لیتا ہے۔ درد رقص بھی ہے اور شاعری بھی۔ درد مقامی بھی ہے اور کبھی ہجرت کرکے بھی ہم تک پہنچتا ہے۔ علم درد کشا بھی اور درد آشنا بھی۔ درد تنہائی بھی ہے اور جڑت سے بھی درد پھیلتا ہے۔ انسان حصول اور ضروریات کا بندہ جس کی ذندگی کے ہجروصال دکھ۔ درد کی ٹون اپنی، لہجہ اپنا، اور مزاج الگ۔ درد کی زمیں اپنی اور آسمان اپنا۔ خوشیوں کے سماں میں درد کے آسماں جیسی وسعت کہاں

درد کیا ہے ؟ ایک حساسیت جو ذی روح کو دی گئی ہے۔ جو اپنا اظہار چاہتی ہے۔ حس رکھتے ہو میاں اور درد سے جان چھڑوانا چاہتے ہو ۔ یہ عقلمندی کہاں سے سیکھی

ارے بھائی درد تو فلیور ہے زندگی کا۔ کہیں تیز چھبتا ہوا، تو کہیں کھٹا میٹھا سا۔ کبھی خیالات کی زمیں پر اگے تو کبھی وجود کی مٹی سے نمو پائے۔ درد کا زائقہ بھی ویسا جیسا ہمارے زہن کی زمیں یا ہمارے وجود کی راہ گزر۔ ہوسکتا ہے ہماری حسیات اس کو جانچ نہ پائیں یا پھر ہماری زہنی صلاحیتیں اس پائے کی نہیں جس سطح پر درد ہمارے زہن وجود میں سرگرداں رہتا ہے کہ وہ اس کو پاسکیں کسی انداز میں۔

جو زبان پر نہ آئے وہ زائقہ کیسا اور جو دل وجان کو اپنی گرفت میں نہ لے وہ درد کیسا ؟ درد کا بھی کوئی مقام ہے جہاں پر رک جاتا ہو یہ دھارا شائد ؟ سنا ہے کہ زہن کی ایک سطح ایسی ہے جہاں درد درد نہیں رہتا بلکہ ایک بے رنگ سیال مادہ بن جاتا ہے۔ اپنا اثر کھودیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ درد تو پوری تاب وتب سے موجود ہو مگر آدمی کا سانچہ ایسا بن گیا ہو جس میں درد اگتا ہی نہ ہو۔ کیا زندہ رہنا اور درد سے بانجھ رہنا ممکن ہے ؟

حبیب جالب نے درد اور زندگی کے تعلق پر ہی تو کہاتھا نہ کہ

اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

مطلب درد اور زندگی اپنی مثل میں ایک ہے۔ ہاں موت ایک مختلف چیز ہے۔ حسیات کی موت شاید درد سے مکتی ہے۔ احساسات کی موت شائد ہم پر درد کا دروازہ بند کردیتی ہو۔ حسیات اور احساسات کے بغیر بھی زندگی ہے کیا؟

درد سے چھٹکارا کیوں چاہتے ہیں۔ زندگی سے بیزار ہیں کیا۔ جینا ہی تو محسوس کرنا ہے۔ اگر محسوسات موجود ہیں تو درد تو آئے گا گھوم پھر کے۔ اچھا کچھ لوگ مزے کے ہوتے ہیں۔ خود کو محسوس نہیں کرپاتے۔ ان میں شائد ایسی صلاحیت نہیں ہوتی یا پھر وہ خود کے لیے کبھی اتنے دلچسپ نہیں رہے۔ اب ایسی روحیں ہمیشہ باہر کی محسوسات سے درد کو ٹیسٹ کرتی ہیں۔ زندگی اندر نہیں باہر ہے۔ اب باہر اگر خوشیوں کے میلہ ہے تو درد کی منڈی بھی تو لگی ہے ناں۔

آخر میں ایک خوبصورت غزل

اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں
درد دریا کے کنارے تو نہیں ہوتے ناں

رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں

راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں

ہونٹ سینے سے کہاں بات چھپی رہتی ہے
بند آنکھوں سے اشارے تو نہیں ہوتے ناں

ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے
اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں

زین اک شخص ہی ہوتا ہے متاعِ جاں بھی
دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں

زین شکیل

2 thoughts on “درد کنارے”

  1. Elària Ælish says:

    ہاں درد کی بڑی زبر دست لزت ہوتی ہۓ واقعی وہ جو دل وجان کو اپنی گرفت میں نہ لے وہ درد کیسا ۔۔۔ لیکن ہاں ہمیں درد پسند نہیں ہم ہمیشہ خوشیوں کی زائقہ محسوسں کرنے کی خواہش کرتے ہیں کبھی درد کی خواہش نہیں رکھی ہم درد کو بھکت کر گزارتے ہیں ۔۔ درد میں جی نہیں پاتے ۔۔۔۔ اچھا مجھے بھی آج تک سمجھ نہیں آئ یہ وقت گزرنے کا ساتھ درد کی شدت کیوں کم ہو جاتی ہۓ تو وہ زہین کا ایک حصہ ہۓ جہاں درد اپنی وقعت کھو دیتا ہۓ ۔۔۔اور میں وقت کو تحسین دیتی رہی وقت کو سراہتی رہی کہ وقت درد کی شدت کم کرتا دیتا ہۓ ۔۔۔ اچھا یہاں درد ایک نا قابل قبول احساس سمجھا جاتا ہۓ ہم جسے بھی درد میں دیکھتے ہیں اسے پتہ نہیں اس کیفیت سے نکلنے کے کتنے نسخے بتا ڈالتے ہیں ۔۔۔ جیسےبندہ کسی جان لیوا مرض میں مبتلا ہو ۔۔۔ جو کچھ ہماری زات میں درد کو محسوس کرنے کے بعد کشید ہوتا
    ہۓۓ وہ غیر معمولی ہوتا ہۓ ہماری زات کئ گنا بڑھ کے پر اثر ہو جاتی ہۓ لیکن ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ کس احساس کی وجہ سے ہوا ۔۔۔
    بہت خوب لکھا
    اور آخر میں غزل بہت ہی عمدہ ہۓ 👌👌👌

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ الیریا
      آپ نے بہت بہتر انداز میں فیڈبیک دیا ہے۔ بہت اچھا لگا آپ کا تبصرہ پڑھ کر۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *