CREATIVE BITES, خاکے, طنزومزاح

ارے استاد ہو میاں

آج ایک استاد سے ملاقات ہوئی ۔ ماشااللہ ویسے لگے جیسے آج سے بیس سال پہلے تھے۔ استادوں کی یہ قناعت پسندی مجھے بہت بھاتی ہےجو یہ سوچتے ہیں کہ علم کا چولہ کافی ہے باقی سب اضافی ہے۔ استادوں کی گوناگوں اقسام مل جاتی ہیں۔ لیکن سب سے کامیاب قسم وہ ہے جس کو دور سے دیکھ کر لوگ پکاریں۔ بندہ بڑا استاد ہے میاں!!۔

استاد ہونا اور استادی دکھانا دو مختلف چیزیں ہیں۔ بہت سارے بیچارے استاد ہو کر بھی استادی کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔اچھا یہ بھی ہے کہ استادی ایسے نہیں آجاتی ۔ کبھی کبھار اس کے لیے ایک خاص طرح کا خمیر ضروری ہوتا ہے۔ کبھی بس استادی دکھانی پڑتی ہے۔ استاد بننا پڑتا ہے۔ جیسے حادثاتی لیڈر ہوتے ہیں نا اسی طرح کے حادثاتی استاد بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں استادوں کی وہ قسم بہت پسند ہے جو دھڑلے سے کہتی ہے کہ بھائیو ہم کوئی استاد نہیں۔ ہم تو نازل ہوئے ہیں اس طرح کی قوم پر ۔ جیسے فرعون پر موسی بھیجا گیا تھا۔ ایسے ہی جیسے شاگرد ویسے استاد۔ اس سے شاگرد میں خوداحتسابی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور آپ سب جانتے ہیں بڑھوتری کے لیے سب سے زیادہ اسی جذبے کی ضرورت ہے۔

استادوں کا ایک قبیلہ صوم وصلات کا پابند ہوتاہے۔ اپنی وضع قطع میں انہوں نے شرح کو بہت اہمیت دے رکھی ہوتی ہے۔ اپنی ہربات کو حدیث کے پیرائے میں کرنے کا ہنر وہ اس خوبی سے برتتے ہیں کہ بسا اوقات سرکاری ٹائم شیڈول کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ ویسے وقت کے ضیاع کے سخت مخالف ہیں ۔ اپنے لیکچرز میں دو تہائی وقت اپنے شاگردوں کو بہتر مسلمان بننے اور آخرت کی فکر کا درس دینے میں صرف کرتے ہیں۔ دنیاوی زندگی کا کیا ۔ یہ تو بس تنخواہ جیسی ہے۔ جو ہر ماہ کے پہلے پانچ دن تک بینک اکاؤئنٹ میں ٹھہرتی ہے۔ اور لامحالہ دس دن تک ہماری جیبوں میں۔ اصل زندگی تو اخروی زندگی ہے۔ جو ہمیش ہے۔ جہاں نعمتیں تنخواہ جیسی نہیں۔ اب جبکہ ان کی اس فانی دنیا میں دلچسپی ہی نہیں تو استاد گیری میں بھی وہ فانی تنخواہ سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔ جتنا وقت ان کی تنخواہ بینک اکاؤنٹ سے جیب میں منتقل ہوتی رہتی ہے کچھ نہ کچھ دنیاوی علوم پڑھا دیتے ہیں اپنے طالبعلموں کو۔ ادھر ان کی بیوی اور بچے ان کی تنخواہ کا حساب تما م کرتے ہیں۔ ادھر استاد محترم کی دنیا سے دلچسپی ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکچر میں دنیا کے فانی اور اس کی ہر چیز کے فانی ہونے کا درس بہت بڑھ جاتا ہے۔ کبھی کبھار ، خاص کر مہینے کے آخری دنوں میں، حالت بہت رجز والی ہوتی ہے۔ مجذوبیت طاری رہتی ہے۔ سارے دنیاوی علوم اپنی اصل میں ٖغیرضروری معلوم ہوتے ہیں۔ سوال پسند نہیں آتے۔ بس ایک کیفیت میں رہتے ہیں۔ موت کا رہ رہ کر خیال آتا ہے۔ طالبعلموں کو موت کی تیاری کرنے کی تاکید بڑھ جاتی ہے۔

اچھا کچھ اساتذہ حضرات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دنیا میں صرف اخبار پڑھنے آئے ہیں۔ حالات حاضرہ سے ان کی دلچسپی اتنی شدید ہوتی ہے کہ جیسے مملکت خدادا کا نظم و نسق ان کے ہاتھوں میں ہو۔ صبح کے ناشتے اور بیوی کی جھڑک کے بعد ان کی محبوب چیز صبح کا اخبار ہے۔ کچھ یار لوگوں کا خیال ہے کہ حاجی پریشان کی شخصیت کی تخلیق بھی اسی طرح کے ڈسپلن کی وجہ سے ہوئی۔ بات صبح کے اخبار کے انتظار کی نہیں اور نہ ہی اخبار گردانی کی۔ بلکہ اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کی ہے۔ ادھر ایک استاد محترم نے اخبار سے ساری مایوس خبروں کو اپنے اندر انڈیلا اور ادھر ان کو خواہش مچلنے لگی کہ اب ان کو اگلا جائے۔ کتھارسس ضروری ہوجاتا ہے نا۔ شام تک ان پر قنوطیت سی طاری رہتی ہے۔ ملک میں کچھ بھی اچھا نہیں ہورہا۔ سارے مزے تو یہ بیوروکریٹ کررہے ہیں۔ کاروباری لوگ ہی زندگی کا رس لے پاتے ہیں۔ اور ایک ہم استاد جن کو قوم کا معمار کا تغمہ لگا کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے خیالات سے بیچارگی میں ایک درجہ ترقی پاتے ہیں۔ واقفان حال کہتے ہیں ایسے بیچارگی کے کلچر میں تو رہ کر ہی حاجی پریشان صاحب کی شخصیت پروان چڑھی ہے۔ اب ان کے ایک کاندھے پر حقیقت کا فرشتہ ہے تو دوسرے پر بیچارگی کا۔ لیکن کچھ سمجھدار لوگوں کا خیال ہے کہ اگر استاد اخبار گردی سے خود کو نکال کر کتاب کی طرف آئیں تو شائد کچھ افاقہ ہو۔ لیکن کتاب میں وہ چاشنی کہاں، وہ چٹ پٹا مسالہ کہاں جواخبار میں ہے۔ کچھ استاد تو نصاب کی کتابوں سے اکتائے اکتائے رہتے ہیں۔ ایک صاحب تو اپنے حلقہ خاص میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ کتاب تو باسی پن کا استعارہ ہے اور اخبار صبح نو۔ دیکھو نہ جب صبح جب اخبار آتا ہے تو کیسی خوشبو ہوتی ہے فریش پرنٹنگ کی۔ اور کتاب کیسے کیسے ہاتھوں سے ہو کر مندھوڑ سی ہو جاتی ہے۔

کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے رزق کی طرح استاد بھی نصیب ہوتا ہے۔ کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ مشقتیں سہنی پڑتی ہیں۔ دعاؤں اور مناجات کے بعد کہیں کوئی استاد ملتا ہے۔ بڑے بزرگوں سے سنا ہے پتر وقت سب سے بڑا استاد ہے مگر ہاتھ نہیں آتا۔ اب بزرگوں کی خود کی حالت اور گزرے اعمال کا جائزہ لیا جائے تو بات سچ معلوم ہوتی ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *