واقفان حال کہتے ہیں کہ عاشق کی عزت نہیں۔ ویسے اس دور خرابات میں عزت ایک رسمی سی کاروائ رہ گئی ہے۔ اگر عاشق کی عزت نہیں تو کیا ہوا۔ ویسے بھی عشق لطف کی دنیا کا پرندہ ہے عزت واکرام کا نہیں۔
عزت کا فالودہ کھا کے کب کوئ جغادری عاشق بنا ہے بھلا ؟ میاں مجنوں سے لے کر حضرت رانجھا تک سبھی نے دکھ جھیلے ہیں۔ دین عاشقی میں تو عزت کا کوئ نام نہیں۔ بڑھے چلو میرے بھائیو، بڑھے چلو۔ دریائے عشق میں مقام اور مرتبہ صرف ایک ہے اور وہ ہے محبوب کا قرب۔ اب جس کو وہ میسر ہے۔ باقی نام ونسب کا ہوش کہاں!! ۔ اب بھلا ان ناہنجاروں سے کوئ پوچھے جنہوں نے دسمبر کو ناحق بدنام کررکھا ہے۔ کہ کمزور سے کمزور دل سے بھی دسمبر کے جاڑوں میں ہوک نکل جاتی ہے۔ جوں جوں جاڑے کی سردی رگوں میں گھستی ہے ۔ بہت سارے ارمان بے مکاں ہوتے ہیں۔ یہ تو ہمتیں ہیں رضائئ کی کہ ایسی سرد آہوں کو جگہ دیتی ہے ورنہ کسی انسانی دل میں تو ایسی وسعت کہاں۔
اب سردی میں ٹھٹھرتے بدن میں براجمان دل میں شوخی کہاں رہے۔ ہم تو ان لوگوں کو بہارد گردانتے ہیں جو دسمبر میں بھی عشق کی حدت کو برقرار رکھتے ہیں۔ کچھ پرانے مگر ٹھکرائے ہوئے عاشقوں کی رائے یہ ہے کہ دسمبر بدنام اس لیے ہے کہ جاڑے کی لمبی اور یخ بستہ راتوں میں وہ محبوب شدت سے یاد آتے ہیں جو ہرجائی نکلے تھے۔ ٹھہر ٹھہر کے خیال آتا ہے ان کی بیوفائی کا۔ اور اوپر سے طویل ہوتی سرد رات۔ اگر کسی نے متبادل محبوب کا انتظام بخوبی کرلیا ہے وہ ذرا اس مشکل وقت کو جھیلنے کی طاقت پیدا کرلیتے ہیں۔ اکثریت خیر گزری یادوں کے کش لیتی ہے۔ اور دھواں ہوتی مجبتوں کو کوستی دسمبر کی راتیں گزار دیتی ہے۔
جب یہی معمہ ہم نے اپنے ایک دیرینہ شناسا کے سامنے اٹھایا جو عشق کی ٹھوکروں کے کافی میڈل سجائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو ایک سنجیدہ سی آہ بھری۔ اور پراپر سے دکھی ہوئے۔ جب دکھ کی ایک دبیز تہہ ان پر طاری ہوگئی تو ہم نے دوبارہ جسارت کی۔ سگریٹ کے دھویں میں اپنا آپ نکالتے ہوئے بولے ۔ آپ سب غلط ملط سے ہو۔ محبوب اور معشوق میں فرق کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے عشق کی سمجھ سے باہر ہو۔ تم جیسے نکتہ دانوں کو تو عشق کا دھواں بھی نہیں ملتا۔ بڑے آئے جاڑے کے کرب کو سمجھنے والے۔ خیر شناسائی کافی پرانی تھی اور حضرت کی حالت بھی کچھ لائق درگزر تھی سو ہم خاموش رہے۔ ہم بولے تو کیا دسمبر میں معشوق ہوتے ہیں اور سال کے باقی دنوں میں محبوب ملتے ہیں ؟۔ ایک دسمبرانہ نگاہوں سے ہماری طرف دیکھا اور دوبارہ دھویں کی دنیا میں لوٹ گئے۔
“ارے ناہنجار معشوق تو عشق کا جاڑا ہے”
دھویں کے بادلوں سے ایک آواز آئی
محبوب تو ایک بادصبا ہے۔ بہار کی ہوا۔ ایک خوشگوار سا احساس دلاتی۔ معشوق تو رگوں میں گھستا ہوا پوہ پالہ ہے جو بندے کو بندہ نہ رہنے دے۔ معشوق سے پالہ پرنا ایسا ہے جیسے کسی جاڑے کے رات کی تنہائی۔ نہ تنہائی جاتی ہے نہ جاڑے کا خیال اترتا ہے۔ بندہ بس وقت کی رضائی میں لپٹا رہتا ہے۔ معشوق کا کیف بھی ایک رگوں میں اترتا جاڑا ہے۔ اگر مناسب رضائی نہ ہو تو بندے کی حالت کافی قابل رحم ہوتی ہے۔
اب جاڑے اور معشوق کے اس تعلق کو جان کر ہمیں لگا پھر دسمبر کا کام کہاں سے آگیا ؟ کام تو پھر معشوق کرتا ہے سب۔ وہ پھر گویا ہوئے۔ دسمبر شدت بڑھاتا ہے تمنا ئے عشق کی۔ جب محبوب کی جگہ رضائی اور تکیہ سے کام چلانا پڑے تو پھر الزام سارا دسمبر پر آئے گا نہ ۔ اب کون بیوقوف ہو جو تکیہ کو مورد الزام ٹھہرائے۔ اور ویسے بھی پاکستان میں آج تک الزام صیحیح جگہ فٹ بیٹھا ہے بھلا ؟
اس سیاسی نما دلیل پر ہم خاموش ہوگئے۔ اتنا تو ہم نے بھی جان لیا ہے جب محبت میں سیاست کی ملاوٹ ہو تو درمیاں سے ہمیشہ سکینڈل نے جنم لیا ہے۔ ہم دسمبر کو کسی صورت سکینڈالائز کرنے کے حق میں نہیں۔ پہلے عاشقوں نے بہت کڑمچ مچا رکھا ہے۔
Rimsha Hussain says:
۔عاشق کی عزت نہیں ہوتی”۔ سو فیصد سچ فرمایا آپ نے”
کیوں کہ اشفاق احمد فرماتے ہیں
“محبت میں ذاتی آزادی کو طلب کرنا شرک ہے۔ بیک وقت دو افراد سے محبت نہیں کی جا سکتی۔ محبوب سے بھی اور اپنی ذات سے بھی۔ محبت غلامی کا عمل ہے اور آزاد لوگ غلام نہیں رہ سکتے”
Elària says:
Rimsha Hussain
Impressive 👌
Rimsha Hussain says:
شکریہ الیریہ