اچھا ایسا ہے کہ کچھ روحیں بھاری بھر کم سی ہوتی ہیں۔ سارے جہاں کا بوجھ لادے پھرتے ہیں دبلے پتلے سے وجود پر۔ ادھر ہماری ارتقائی نکتہ دان ہیں جو کہتے ہیں روح تو بس شاعروں کی تخلیق ہے۔ انسان تو بس ایک مادی وجود ہے اور اپنی ضرورتوں کی زندگی جینے والا۔ اب ہم جیسے کم علم اس گتھی کو کیسے سلجھائیں بھلا۔ ویسے بھی بھاری بھاری باتیں زہن میں رکھ لینے سے کوئی بھاری بھر کم شخصیت تو نہیں بن جاتی نا۔
اب ایک ہیں ہمارے دوست ضرورت خان جو ایسی کسی بحث کی طرف سرے سے ہی نہی آتے۔ وہ روح اور مادے کی گفتگو میں ہمیشہ ضرورت کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق روح کی بحث کو یا تو ضرورت مند مولوی نے زندہ رکھا ہوا ہے یا پھر بےضرر فلسفی نے۔ اس کے بیچ ساری دنیا ضرورت کی ہے۔ ہم کبھی کبھی ضرورت خان کو ٹوکتے رہتے ہیں کی ارے بھائی ایسی سوچ آپ کو کہیں نفسیاتی الجھنوں میں نہ ڈال دے۔ کہتے ہیں کہ ضرورت خان دو رائے نہیں بلکہ ایک ضرورت سامنے رکھتا ہے۔ کہتا ہے میرے قبیل کے سارے لوگ ایسے ہیں۔ اپنی ترجیحات میں واضح۔ آپ جیسے ڈرپوک لکھاریوں کی طرح نہیں۔ جو لفظ سے بھی پوچھ کے لکھتے ہیں کہ کہیں زیر زبر کے معاملات نہ ہوجائیں۔
ضرورت خان مشروب بے فائدہ سے جی نہیں لبھاتے۔ بلکہ اس راہ پر نہیں چلتے جہاں مطلب نہ ہو۔ اور ایسے تمام ٹرک ڈرائیوروں کو سخت ناپسند کرتے ہیں جنہوں نے ٹرک کے پیچھے یہ لکھوایا ہوتا ہے ‘ دنیا مطلب دی ہے یارا’۔ وہ سخت کوستے ہیں اس ٹرک دانش کو اور کہتے ہیں کہ اگر یہ ڈرائیور اگر کبھی ٹک کر بیٹھے تو جانیں کہ دنیا کیا ہے۔ سفر میں رہنے والے بندے زندگی کے ٹھہراؤ سے محروم رہتے ہیں۔ ہاں اگر ہم کبھی اختلاف کی جسارت کربھی لیں تو ہمیں ٹوک دیتے ہیں ۔ کہ بھائی آپ ابھی دنیا کی گہرائیوں میں نہیں اترے کی کیسے ‘ ضرورت چھپ چھپ کے بنالیتی ہے تصویریں’۔ ان کا فرمان ہے کہ صبح سے لے کر شام تک انسان بس اپنی ضرورتوں کو جیتا ہے ۔ اور جو اس بات کو نہیں مانتا وہ پرلے درجے کا مکالمہ باز ہے اور کچھ نہیں۔ ہم نے کہا ارے صاحب آپ تو بہت ہی روڈ قسم کے ریئلسٹ تو نہیں ہو گئے۔ کہتے ہیں بھائی سچ کی طرف آؤ۔ یہ جو آپ نے دوستی، رحم، مروت، لحاظ ، احساس جیسے اظہار گھڑ رکھے ہیں ان سے بس کتابوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے۔ ہم بھی ذرہ چارج اپ ہو گئے۔ اسی لہجے میں جواب دیا۔ ارے ضرورت خان آپ تو نرے مادہ پرست نکلے۔ سب رشتوں سے ہی انکار کردیا۔ اب دوستوں میں کتنا لحاظ ہوتا ہے۔ کییسے رکھ رکھاؤ ہے ۔ ارے یہ مروت ہی تو ہے جس نے دنیا کا نظام چلا رکھا ہے۔ ورنہ ہر چیز بولنا شروع کردے تو ہم جیسے کس شمار قطار میں رہیں۔
ضرورت خان کو ہم جیسے ڈرپوک سے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ کچھ دیر توقف کے بعد بولے۔ ارے صاحب دنیا کا نظام لینے دینے پر چلتا ہے۔ جہاں دیکھو ۔ کوئی لے رہا ہے اور کوئی دے رہا ہے۔ اب اس گو اینڈ ٹیک میں مروت بھی آجاۓ تو کیا مروت اصل ہوئ۔ ارے بھائ اصل معاملہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کا ہے۔ ہر رشتہ اس پر استوار ہے۔ ویسے بھی مروت ایک تاجرانہ کیفیت ہے۔ جب تک تاجر کا منافع وابستہ ہے وہ مروت برتتا ہے۔ اور جب منافع کی آخری منزل پہنچی۔ مروت یہ جا وہ جا۔
اس کے بعد ہم نے تہیہ کرلیا ضرورت خان سے کبھی بحث نہیں کرنی۔