طنزومزاح, کاف کالم

ہم کے ٹھہرے اجنبی

کیسے کیسے بچے بیچارے کلاس رومز میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اور ان پر مسلط اپنے میک اپ اور شعبے سے الجھتی استانیاں۔ اور زندگی کی اونچ نیچ میں ہچکولے کھاتا استاد۔ ہمارے حاجی پریشان صاحب بسا اوقات ہم سے بدلہ اس طرح لیتے ہیں کہ ارے میاں آپ کہاں استاد ہو۔ آپ تو اس مملکت خداد کا ایک ایکسپیریمنٹ ابجکٹ ہو۔ چہاں جا استاد کو آگے کرلیا اور مطلوبہ ردعمل استاد کی حالت سے ماپ لیا۔ اب مردم شماری کو ہی دیکھ لیں۔ کہاں اس ہمہ خور مخلوق کو گنا جاسکتا ہے بھلا۔ بس مردم شماری کی ٹیم میں موجود فوجی جوانوں کو یہ خفیہ ہدایت دی گئی تھی کہ شام کو استاد کی حالت دیکھ کر آبادی کا تخمینہ لگا لینا آپ۔ اگر استاد محترم زندگی سے مایوس مگر بھوکے ہیں تو سمجھ لیجے آبادی کا تناسب ان کے خود کے بچوں جتنا ہے۔ اگر ان کے چہرے پر بشاشت ہے اور وہ کھل کھلارہے ہیں تو سمجھ لیں آبادی کا تناسب بہت کم ہے۔ اگر استاد صاحب شام ہوتے ہی کسی گہری سوچ میں ہے اور کچھ بول نہیں رہے تو اس سے یہ اخذ کرنا آپ کہ گنتی رجسٹر میں دوسری شادی کی خانہ پری بہت ہوئی ہے۔ بقول حاجی پریشان استاد کا چہرہ پبلک نیوز کا ڈیش بورڈ ہوتا ہے۔ ملکی اور مقامی خبریں باآسانی پڑھی جاسکتی ہیں۔

حاجی پریشان کی باتوں سے کوفت نہیں ہوتی۔ شائد وہ خود بھی کبھی جزوقتی استاد رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ شریر بچوں نے ان کے خلاف ایکا کرلیا کہ اگر پریشان صاحب مزید اس طرح ہمارے مستقبل سے کھیلتے رہے تو ہم راست اقدام کریں گے۔پریشان صاحب کو اس شاگردانہ دھمکی کا پتا چلا تو وہ مزید پریشان ہوئے۔ اچھا پریشانی اگر بڑھ جائے تووہ زیادہ معتبر لگتے ہیں اور خوشی میں تو مرجھا سے جاتے ہیں۔ اس کیفیت گومگوں میں وہ پرنسپل کے آفس جا پہنچے اور اپنے دکھ کی پوٹلی کھول کے رکھ دی ۔ ایک سے ایک رنگ ان پر چڑھ رہا تھا۔ پرنسپل بڑے جغادری قسم کے انسان تھے۔ انہیں پتا تھا اگر اس کیفیت میں پریشان کو یہ خوشی ملی کہ باغی طالبعلموں کے خلاف ادارہ تادیبی کاروائی کرے گا تو اس کا ان کی موجودہ حالت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کے پریشانہ کیریکٹر پر جو چیز اثر کرتی تھی وہ تھی مزید پریشانی۔ جیسے محبت کا علاج اور محبت۔

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جب شرابوں میں ملیں۔ اب یہی تو پرنسپل صاحب نے کیا۔ پریشان صاحب کو بہت ہی پولائیٹ انداز میں یہ کہا گیا کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں ۔ نادان سے ۔ بڑوں کو ایسی باتیں سنجیدہ نہیں لینی چاہیے۔آخر آپ کے بھی تو بچے ہیں نا۔ اس طرح کے جواب نے پریشانی میں اور اضافہ کیا۔ شخصیت تھوری اور معتبر ہوئی۔شعبہ استادی سے بیزاری ہوئی۔ اور ردعمل کی قوت کو مہمیز ملی، الجھن کی خلیج کم ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ پرنسپل کے آفس سے کلاس روم کے آنے تک زہن کی دنیا میں کئی انقلابی منصوبے دستک دے چکے تھے۔ کمرے میں داخل ہوئے۔ بورڈ مارکر رکھا۔ ایک پریشان نگاہ کلاس کے ہونہار بچوں پر ڈالی ۔ صافہ اٹھایا اور چل دیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *