طنزومزاح

انگور کھٹے ہیں ؟

اب جبکہ یہ بات طے ہے کہ ایف پی ایس سی نے بحثیت ادارہ ہم جیسے انٹلیکچول کو مقابلے کے امتحان میں پاس نہ کرنے کا  جونیا محاذ کھولا ہے تو ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم ببانگ دہل یہ اعلان کریں کہ سی ایس ایس ایک منزل بے مراد ہے ۔ میرسے معذرت کے ساتھ:

وہ تجھ کو   سیلیکٹ نہیں کرتے  تو تجھ پے بھی لازم ہے میر

   خاک ڈال ، آگ لگا، نام نہ لے، یاد نہ کر

آج یہ بات عیاں ہونے میں قباحت  نہیں کہ بندہ ناچیز بچپن سے ہی جذباتی واقع ہوا ہے۔جب والد محترم  شام کو کچہری سے واپس آ کر  صاحب بہادر کی گردان شروع کرتے تو من میں ایک عجیب سی اداسی آجاتی۔  گو کہ اس اداسی کے ماحول میں بڑے بڑے سرخ مالٹوں کی خوشی  جو والد صاحب لانا کبھی نہیں بھولتے تھے ایک بیلنسنگ ایکٹ کا کردارادا کرتی تھی۔ خیر ان مالٹوں سے کہیں زیادہ مٹھاس ابا کی چارپائ کے ساتھ لگ کے مزے مزے کی کہانیوں میں ہوتی تھی۔ ہر کہانی میں کوئ نہ کوئ صاحب بہادر ضرور ہوتا تھا جو ابا جی کا دوست ہوتا تھا اور ابا جی باقاعدگی سے اس کے لیے شہد ، دیسی گھی اور دیسی گھی میں پکا ہوا ساگ لے کے جاتے تھے۔ برائلر مرغی کی برکات اس وقت ہمارے گاّوں میں نہیں پہنچی تھی  اور دیسی مرغی خاص کر صاحب بہادر کے ہرکارے لے جاتے تھے۔قربانی کے بکرے بھی بڑی محبت سے پالے جاتے تھے جو قربانی سے ایک دن پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ روانہ کیے جاتے تھے۔ اس جذباتی ماحول میں پروان چڑھنے والا مجھ جیسا ہونہار بچہ جس کو باپ کی توجہ بوجہ مصروفیت کارِ صاحب بہادر  آدھی نصیب ہوئ ہو کیوں نہ جذبات میں آکر سی ایس ایس کرنے کی جرات بے وقوفانہ کرتا ؟ ادھر  ایف پی ایس سی کے ناہنجار افسران کی منطق ملاحظہ ہو کہ قوم کے نونہالان کی غالب اکثریت پاور کے حصول کےلیے اس کوہ گراں کی طرف راغب ہے۔ ارے بھائ غریب کسان کے گھر سے دیسی مرغی منگوانا کون  سی  پاور ہے ؟ اب ایسی سادگی پر رووں یا   پیٹوں جگر کو میں۔

خیراس ادارہ  جوں کا  توں  جسے انگریزِ  ی  کے     خوش نما الفاظ میں ایف پی ایس سی کہا جاتا ہے کی کچھ بات ہوجاوے اور میری اس بات کو اہل ادارہ انگور کھٹے ہیں کے مصداق لیں گے لیکن میں ایسی لیبلنگ سے گھبرانے والا نہیں –ویسے بھی دانش مندوں نے یہ منطق کچے انگوروں کے ہمارے  گلے پر پڑنے والے مبینہ اثرات سے آگاہی  اور ہمارے ٹییسٹ بڈز  کی مبینہ بدزوقی کی نشاندہی کے لیے گھڑی تھی۔ اور  کچھ سٹیٹس کو کے نمائندوں نے اس کو بہت دیدہ دلیری   سے اپنی کوتاہ اندیشی    کے خلاف شیلڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اگر ریاضی کے اصول جمع تفریق کو سامنے رکھا جائے تو اس ادارے نے خوف کو   جیسے صاحب بہادر میں مجتمع کرکے جو معاشرے میں تفریق پھیلائی ہے پچھلی نصف صدی میں ایسی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ قوم کے نوجوانوں کی ایک غالب اکثریت  کو امتحان سے سلیکشن تک مراحل  میں   خوف  اور بے یقینی کی اچھی خاصی ڈوز گھسیڑ دی جاتی ہے  اس   سے  تو صرف دو طرح کے بیمار رویوں کا وجود ہوسکتا ہے- خود فریبانہ خوداعتمادی اور  مستقل بیقینی ۔   کچھ واقفان ماضی حال یہ ضرور اعتراض کریں گے کہ تفریق تو انگریز کے دور سے ہے اس میں ادارہ جوں کا توں یا اس کی پراڈکٹ صاحب بہادر کہاں سے آگئ؟ ۔ارے بھائ  اس کالونیل گریس کو جوں کا توں رکھ کے ادارہ تغا فل جاہلانہ کی روش پر کیوں گامزن ہے  ؟  اب جبکہ ادارہ سے نکلنے والی پراڈکٹ کا نین نقشہ ہی تفریق اور خوف  کی ملمع سازی  سے وجود پاتا ہو تو اس ناچیز پر انگو ر کھٹے ہونے کا الزام فٹ نہیں بیٹھتا۔ 

  ارے صا حب ہم سے کیا پوچھتے ہو  ہم تو اندھیرے میں مات کھا گئے اور تھوڑا ابا جی کے آنسووں کو سنجیدہ لے بیٹھے ، اس امتحان کو ذہانت اور قابلیت کا  استعارہ سمجھ بیٹھے  ۔ہمارے یار بیلی چالاک نکلے ۔ کچھ ادھر سے پکڑا کچھ ادھر سے اٹھایا اور جا کے جھڑدیا۔ تحریری  امتحان پاس ہوئے ، انٹر ویو کے لیے پاس  دورکے سارے بااثر رشتے داروں کی دعائیں لی اور یہ جا وہ جا  سول سروس اکیڈمی جا پہنچے ۔اپنی کہانی بازی کی صلاحیت نے تحریری امتحان تو نمایاں نمبروں سے پاس کرادیا ہمیں، لیکن انٹرویو میں ابا جی کے آنسووں سے زیادہ ان کی پروفائل کی اہمیت تھی۔ اس دن عقدہ کھلا کہ صاحب بہادر ہونے کے لیے صرف  جذباتی  اور کہانی باز ہونا کافی نہیں ، بلکہ کچھ درجے اور بھی چاہیے اس منزل کو پانے کے لیے۔  نہ ہم نے اپنی روش  بدلی اور تخلیقی صلاحیتوں کو ہی کامیابی کا پیمانہ سمجھتے رہے  اور لکھنے پڑھنے میں خود کو پیہم مصروف رکھا۔ اگلی باری پھر  ایف پی ایس سی نے ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا- تحریری امتحان نمایاں نمبروں سے پاس اور زبانی امتحان میں رعائیتی نمبر ۔ ہماری تین سال کی  محنت شاقہ کے باوجود ہم صاحب بہادر نہ بن سکے ۔ اب اگر اس تجربے کے بعد ہم اس ادارہ کا  نام ادارہ جوں کا توں کا نہ رکھیں تو  کیا رکھیں ۔ ہماری سلیکشن سے لے کر صاحب بہادر کی بے یقینی تک بدلا کیا ہے اس ادارہ نے اور الزام ہم پر دھرتے ہیں کہ انگور کھٹے ہیں۔

3 thoughts on “انگور کھٹے ہیں ؟”

  1. Sajid Ramzan says:

    the best title for the story which I must suggest is “Craze for Sentimental Services CSS”

    1. Yaseen Baig says:

      yes, you can suggest so 🙂

  2. Elària Æylish says:

    I Really salute to Your Efforts Man, for Css for three time ..
    No DouBt YoU are intellegent but the system was not in yOur FaVour …….
    Nd salute to Your Expensive Urdu Too;)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *