طنزومزاح

تیاری کرنا سی ایس ایس کی

سی ایس ایس امتحان کی پیچیدہ کاریوں میں ہماری گومگوں کیفیت کے علاوہ جہاندیدہ کوچنگ اکیڈمیز کا بھی بہت عمل دخل ہے ۔ ویسے تو معاشرہ جنک فوڈ اور سستی اشتہار بازی پر زندہ ہے  لیکن اس امتحان کے معاملے میں اکیڈمیز کی اشتہاربازی نے ہماری فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو پوری طرح سے چیلنج کیا۔ ایک عرصہ تک تو  یہ حالت رہی کہ صبح ایک کوچنگ سنٹر والے سے بات کی تو شام کو دوست نے کسی اور کوچنگ سنٹر کی تعریف کردی۔ سینیرز سے بات کی تو کنفیوژن میں ایک درجہ ترقی پائ۔ اس شش وپنچ میں جب نوبت ارادہ ترک کرنے تک پہنچ گئ اور ایک دن روزی کمانے کے مختلف  مروجہ طریقوں پر غوروفکر پر بھی صرف کیا۔لیکن بات نہ بنی ۔ جب اس زمانہ کنفیوژن میں بات یہاں تک پہنچ گئ کہ ہم کسی وقت بھی اس امتحان سے دستبردار ہونے کا اعلان کرسکتے ہیں تو ایک عجب واقعہ ہوا دل کے ساتھ۔ ہم  شہر اقتدار کے ایک وسیع وعریض پارک میں واک کررہے تھے کی اچانک ایک آواز سنی ” بیٹا اس ملک میں رہنا ہے تو سی ایس پی بن کے رہو – جینا تو یہاں صرف بیوروکریسی کے ہاتھ میں آتا ہے یا پھر فوج”۔ بات دل کو لگی ، ادھر ادھر نظر دوڑائ  لیکن بولنے والا قریب نہ پایا ماسوائے چند نقش بتاں کے ۔جب دوسری مرتبہ یہی گدگدی ہوئ تو عقدہ کھلا کے یہ شرارت اپنے دل کی ہے۔ خیر ایک عہدغوروفکر تمام ہوا اور ہم پوری طرح اس بات پر ایمان لے آئے کہ عرض پاک کی خدمت صرف سی ایس پی بن کے ہی ہوسکتی ہے۔

ایک بات کی وضاحت مجھ پر لازم ہے کہ کچھ ہمدردان ادرہ جوں کا توں اس پارک والے واقعہ سے یہ دلیل نہ بنالیں کہ وہ  میری بچپن کی جذباتی وابستگی والا معاملہ نادرست ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ۔ صاحب بہادر کا آرکی ٹائپ تو شروع سے موجود تھا۔ اس پارک انسپائریشن نے تو مہمیز کا کام کیا اور جو تھوڑا بہت انڑشیا تھا وہ تمام ہوا۔

 اب معا ملہ درپیش تھا امتحان کی تیاری کے لیے وقت نکالنا اور مناسب رہنمایئ کا انتظام ۔  رہنمائ کا تو پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ کیسے ہمیں ورغلایا گیا کہ فلاں اکیڈیمی سے کتنے لوگوں نے کوالیفائ کیا او ر فلاں سے کتنے ایسپرنٹ ٹاپ  کیڈر میں ایلوکیٹ ہوئے۔ اگر اس ساری تعداد کو جمع کیا جاتا تو وہ کوئ ایک ہزار بنتی ۔ جبکہ جیسے بعد میں ہمیں پتا چلا کہ اصل میں ایلوکیٹ ہونے والوں کی تعداد تو اوسطا تین سو تک رہتی ہے۔یہ اسرار آج تک آشکار نہ ہوسکا کہ باقی سات سو ایسپرنٹ کہاں ایلوکیٹ ہوتے ہیں ؟  کوچنگ سنٹر کی اس درجہ دروغ گوئ نے بہت مایوس کیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ بھائ  عصائے موسی کی تمنا ایک طرف ،  اب یہ نیل اپنے سہارے پار کرنا ہے۔

منیر نیازی کے بقول جس اور  دریا کا سامنا ہمیں تھا ان میں  تمام مضامیں کا ایک مکمل عمومی جائزہ  سب سے کٹھن۔ اب اتنے سارے مضامیں اور کتنی محدود ہماری علمی اور فکری نظر۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ایک لمحہ اکیڈیمیز کا ریڈی میڈ فارمولا  بہت بھلا لگا، مگر پھر اس خیال کو روبوٹک اور بورنگ سمجھ کر  فورا جھٹک دیا۔ ہمارے اندر کے انٹلیکچوئل نے تو برابر  احتجاج کیا ، کہ جب تک مکمل تصویر سامنے نہ ہو کسی حوالے سے مکمل رائے کیسے بنائ جا سکتی ہے۔ چلیں جی پیچیدگی در پیچیدگی ۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ادارہ جوں کا توں سرخ wheels within wheels فیتا کا شکار ہے یا اس کی پراڈکٹ صاحب  بہادر انگریزی زبان کے محاورہ  کی کائ سےمتاثر  ، مگر اس امتحان کی تیاری کے ابتدائ مراحل میں جن مسائل کا ہم شکار ہوئے وہ  اپنی نوعیت میں منفرد تھے

One thought on “تیاری کرنا سی ایس ایس کی”

  1. Justin says:

    Long time supporter, and thought I’d drop a comment.

    Your wordpress site is very sleek – hope you don’t mind me asking what theme you’re using?
    (and don’t mind if I steal it? :P)

    I just launched my site –also built in wordpress like yours– but
    the theme slows (!) the site down quite a bit.

    In case you have a minute, you can find it by searching for “royal cbd” on Google (would appreciate any feedback) – it’s
    still in the works.

    Keep up the good work– and hope you all take care of yourself
    during the coronavirus scare!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *