خاکے

چاند دیوتا کے نام

اگر کبھی ایسا وقت آے کہ مجھے چاند کو خط لکھنا پڑے تو وہ تحریر کچھ اس طرح سے ہوگی

چاند دیوتا

مون نگر، ضلع آسمان ، مِلک خدائی

زمین زاد ہوں خوبصورتی کا متلاشی۔ تیرے حسن کی جھلک تو ہر روح میں پیوست ہے۔ شائد یہ تیری دوری ہے جس نے تجھے خوبصورت بنارکھا ہے !! ورنہ ہم انسان تو اکثر قرب سے اکتا جاتے ہیں چاہے کتنا حسین کیوں نہ ہو۔ اور ہمارے ڈی این اے میں یہ آگیا ہے کہ جو دور ہے وہ خوبصورت ہے۔ جس کا حصول مشکل ہے وہ کمال ہے۔ لیکن میاں چاند تیرے معاملے میں شائد ایسا نہ ہو۔ کیونکہ تو دور بھی ہے اور بہت قریب بھی۔ صحرا کی وسعت میں سانس لینے والے چرواہے کے لیے تو کتنا قریب ہے۔ دریا کے کنارے ملاح جب اپنی کشتی میں سوتے ہوئے تیرا دیدار کرتا ہے تو کتنا قریب پاتا ہے تجھے ۔ اور جس دن تیرے ضلع آسمان پر سب صاف ہو تو پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوا کوہستانی بوڑھا تجھ سے ایسے ہم کلام ہوتا ہے جیسے پاس کھڑے اپنے ہم جولی سے محو گفتگو ہو۔

لیکن چندا تو دور بھی تو ہے نا۔ جب فلک بوس کنکریٹ کے پہاڑ تجھے انسانوں سے ملنے سے روک دیتے ہیں۔ جب بے لگام دھوئیں کی تہ در تہ چادریں تیرا راستہ بند کردیتی ہیں۔ جب زمین زادوں کی نفسانفسی انہیں بل نما گھروندوں میں مقید کردیتی ہے۔ اور جب تیرے رقیب بجلی کے قمقمے زمین زادوں کو بھاجاتے ہیں۔ اور جب ہم انسان اپنے اندر کی روشنی گل کردیتے ہیں تو کتنا دور لگتا ہے تو میرے چاند۔

اچھا مجھے تو یہ نہیں معلوم کہ تیرا نام واقعی میں چاند ہے یا پھر زمیں زادوں نے اپنی سہولت کے لیے تجھے چاند بنارکھا ہے ۔ جو ہو ارے نام میں کیا رکھا ہے۔ روشنی سے چاند بنتا ہے یا چاند نام رکھنے سے کوئی روشن ہوجائے گا ؟ کہتے ہیں کہ تیری خوبصورتی مستعار کی ہوئی ہے سورج سے۔ اب سورج کی چمک زیادہ ہے کہ انسان اس کو سہار نہں سکتا۔ مگر جب یھی چمک چاند کے زریعے زمین زاد تک پینچتی ہے تو بھلی لگتی ہے۔ اس سے تو یہ بھی رائے بن سکتی ہے کہ حضرت انسان اپنی منظر پسندی میں شدت پسند نہیں۔ سورج کی شدت نہیں برداشت، مگر چاند کی معتدل روشنی خوبصورتی کا استعارہ۔ تو اعتدال خوبصورتی ہوا نا جیسے چندا میاں خوبصورت ہیں۔

میں نے تو سن رکھا ہے کہ کوئی دیوی رہتی ہے ادھر تیری دنیا میں ۔ اور اس کے حسن کے گرویدہ ہیں کتنے سارے شاعر۔ کتنی نظمیں ہیں جو تیرے حسن پر لکھی میری نسل نے۔ اب یہ نہں پتا وہ تجھ تک کبھی پہینچی بھی یا نہیں۔ کہتے ہیں کہ پرانے دور کے ہندوستان میں ایک شاعر ہوا کرتا تھا جو تیرے عشق میں گرفتار تھا ۔ اور جب ہر چودھویں کو تو جلوہ افروز ہوتا اپنے پورے جوبن کے ساتھ تو وہ دوڑ لگادیتا تھا تیری طرف۔ اب پتا نہیں تو کیسے فیل کرتا اس منظر کو ۔ لیکن اس بیچارے شاعر کی تجھ پر وارفتگی دیدنی تھا۔ اچھا وہ تو پھر انسان تھا۔ اپنی نسل کی طرح خوبصورتی کا متلاشی۔ اب چکور کا بھی تو آپ کو پتا ہوگا۔ بےچارہ پاگل سا ہوجاتا ہے تیرے حسن کو دیکھ کر۔ اڑ کر پہینچنا چاہتا ہے تجھ تک۔ اور اس خواہش میں کئی بار جان سے بھی جاتا ہے۔ اب تو نازوادا کا پیکر ، تجھے کیا معلوم چکور کا دکھ۔ ، حسن کے متلاشی انسان کا دکھ۔

اچھا یہ جو تیرا بڑھنا اور گھٹنا ہے نا مجھے زندگی سا معلوم ہوتا ہے۔ تو بھی گردش وقت میں ہے میرے پیارے چندا۔ ہیں نا ایسا کیا ؟ اچھا کبھی تو پورا چاند اور آسمان تیرے نور سے بھرا ہو۔ اور کبھی تو اماوس کا چاند بن جاتا ہے۔ اندھیری راتوں میں ایسے ڈر ڈر کے نکلتا ہے جیسے تجھے زمین زادوں سے خطرہ ہو۔ اور پھر کچھ عرصہ گھٹ سا جاتا ہے۔ ایک باریک سی رسی کی مانند۔ نامعلوم سا بن جاتا ہے۔ تیرے اندر بھی تو بیچینیاں ہوں گی !! یا قدرت نے یہ سب ہم زمیں زادوں کو بخش رکھی ہیں ؟ تیرے رقیب بھی تو ہوں گے مون نگر میں

۔لیکن یہ بور قسم کے سائنسدان تو کہتے ہیں تو تو بس مٹی اور پتھروں کا ڈھیڑ ہے۔ کہیں یہ سب سچ تو نہیں ؟ اگر تو بھی زمین زادوں کی طرح باہر سے چمکدار اور اندر سے پتھروں کا ڈھیر ہے تو تیرا حسن ایک خوبصورت فریب ہے کیا ؟ کہیں تو بھی ظاہرداری کے مرض میں مبتلا تو نہیں!! اچھا حضرت انسان تو مورٹل ہے۔ تھوڑے سے پل کے لیے دنیا کی روشنی میں آیا ہے۔ اس میں تو ایسی انسکیوریٹی سمجھ میں آتی ہے۔ اب چھوٹی سی زندگی میں باہر سے ہی لیپا پوتی ہوسکتی ہے کون اندر کے کیریکٹر کو سنوارے ، ۔ مگر پیارے چندا تم تو لاکھوں سالوں سے موجود ہو۔ تم بھی ویسے اندر سے پتھرکے پتھر ہو کیا !! مجھے تو یقیں نہیں آیا، سوچا خود ہی پوچھ لوں آپ سے۔

اب اگلی چودھویں رات میں اور جونو مون واک پر نکلیں گے اور پھر ڈھیڑ ساری باتیں ہوگی آپ سے۔ اچھا میرے خط کا جواب ضرور دینا۔

تیری محبت میں گرفتار

ایک زمیں زاد

16 thoughts on “چاند دیوتا کے نام”

  1. Rimsha Hussain says:

    زبردست ۔اب تو چندا کا جواب نا دینا نا انصافی ہو گی۔

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ رمشا حسین
      جی ہم بھی چندا سے یہی توقع رکھتے ہیں۔

  2. Elària Ælish says:

    👌👌👌بہت ہی خوبصورت تحریر
    اور اتنا پیار بھرا خط چاند کو لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہیں چاند بھی اپ پر فدا ہو گیا تو زمین والوں کا کیا ہوگا ⁦😉😉؟
    اور ایک بات حیرت میں ڈال رہی ہۓ کہ واقعی آپ نے یہ دن کو چاند پر اتنا حسین تبصرہ کر لیا؟ ؟ یا ہمیں پڑھنے کا موقع دن کو ملا یۓ😌 ۔
    اچھا چاند مجھے بھی کبھی کبھی اپنی طرف بہت کشش کرتا ہۓ۔۔ ایسی کشش ہوتی ہۓ کہ بس چاند سے نظریں نیں
    ہٹتیںں ۔۔ ہٹتیں کیا میں ہٹا ہی نہیں پاتی۔ ایک ایسی کشش آنکھوںں کو جکڑ لینے والی وہ پورے چاند کی قاتل روشنی میرے سارے اختیار اپنے حسار میں لے لیتی ہۓ ۔۔ اور میرا خود پہ ہی بس نہیں چلتا کہ میں نظروں ہٹاؤں تو ہٹاؤں کیسے۔۔ میری چاند کی طرف یہ غیر معمولی اٹریکش آج تک سمجھ نیں آئ کہ آخر چاند میں ایسا ہۓ تو ہۓ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

    1. Ghulam Mustafa says:

      .چکور کا چاند کی طرف دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں ہے
      جس طرح سورج مکھی کا سورج کی طرف دیکھنا . جس
      طرح ندی کا پانی سمندر کی آغوش میں آ کے اپنا دم توڑ دیتا ہے.
      جس طرح بنھورا پھول کا طواف کرتا ہے. جس طرح پروانا . . شمع پے جانثار ہو جاتا ہے.جس طرح بادل اپنی بارش سے زمین کی پیاس بجھاتا ہے. اس کوءل سے پوچھو جو مھبت کے میٹھے راگ گاتی ہے.

      1. Yaseen Baig says:

        شکریہ مصطفی صاحب
        آپ نے تو سماں باندھ دیا ہے۔
        چکور کا چاند کی طرف دیکھنا اس کے بس کی بات نہیں۔
        بہت خوب

  3. Elària Ælish says:

    😍اور آج تو لگتا ہۓ چاند میاں زمیں پر ضرور اترے گا
    آج کی رات دل تھام لیں محترم 😉😉۔

    1. Elària Ælish says:

      اتنی خوبصورتی۔سے آپ نے دلچسپ تحریر کی ہۓ ۔۔۔۔
      کہ بار بار پڑھنے کر جی چاہۓ ۔۔۔
      آپکا امیجینیشن کمال ہۓ 👌👌
      جیسا کہ
      اچھا مجھے تو یہ نہیں معلوم تیرا نام چاند ہۓ یا زمین زادوں نے اپنی سہولت کے لیۓ رکھ چھوڑا ہۓ 👌😅

      مجھے یہ لگا ہۓ حضرت انسان اپنی منظر پسندی میں شدت پسند نہیں سورج کی روشنی کی شدت نہیں برداشت اور چاند کی معتدل روشنی خوبصورتی کا استعارہ ۔تو اعتدال خوبصورتی ہوا نا۔۔👌👌

      دریا کے کنارے جب ایک ملاح اپنی کشتی میں سوتے ہوۓ تیرا دیدار کرتا ہوگا تو کتنا قریب پاتا ہوگا تجھے 👌👌انتہائ خوبصورت تصور

      اچھا کبھی تو پورا چاند اور آسمان تیری نور سے بھر جاتا ہۓ اور کبھی تو اماوس کا چاند بن جاتا ہۓ اور اندھیری راتوں میں ایسے ڈر ڈر کے نکلتاہۓ جسے تجھے زمین زادوں سے خطرہ ہو 👌👌۔۔

      لیکن یہ بور قسم کے سائنسدان تو کہتے ہیں تو تو بس مٹی اور پتھروں کا ڈھیر ہۓ کہیں یہ سچ تو نہیں؟ اگر تو بھی زمین زادوں کی طرح باہر سے چمکدار اور اندر سے مٹی اور پتھروں کا ڈھیر ہۓ تو تیرا حسن ایک خوبصورت فریب ہۓ کیا ؟کہں تو بھی ظاہر داری کے مرض میں مبتلا تو نہیں؟؟ 👌👌

      1. Yaseen Baig says:

        بہت شکریہ الیریا
        آپ نے تحریر کو پسند کیا اس سے بہتر فیڈبیک کیا ہوسکتا ہے میرے لیے۔
        آپ کے زوق کی تحسین کرنی پڑے گی۔

  4. Shahbaz Ahmad says:

    It’s a great imagination of expressing the beauty of moon 🌙 .

    1. Yaseen Baig says:

      Thanks, Shahbaz
      I appreciate the way you commented.

  5. Ali Arslan says:

    بہت خوب جناب

    1. Yaseen Baig says:

      Thanks, Ali Arslan
      Your appreciation is encouraging

  6. Siddique Anjum says:

    بہت خوبصورت تحریر اور دلکش اندازِ بیان. دلی خوش ہوئی❤️❤️

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ صدیق انجم
      آپ ایک حساس دل کے انسان ہیں۔ یہ تحریر آپ جیسے لوگوں کے لیے تھی۔

  7. غلام یاسین says:

    کیا ہی بات ہے

    1. Yaseen Baig says:

      شکریہ جناب
      آپ کا زوق۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *