اگر انسان سے متعلق علم میں مجھے کانٹ چھانٹ کی اجازت ہوتی تو میں اس کو یوں مختصر کرتا
کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو خواب آنکھوں پر جیتے ہیں، اور ایک وہ جو خواب زبان پر جیتے ہیں۔
ہمارے ملیر کا پہلی قسم کے انسانوں میں شمار ہوگا۔ جب بھی ملو خواب زدہ آنکھیں۔۔۔ ایسے لگتا ہے ملیر ایک خواب کو اتار کر دوسرا ایسے چڑھا دیتا ہے جیسے ایک خوبرو حسینہ سرمہ بدلتی ہے۔ ملیر کی شخصیت کا اپنا سحر ہے۔ میں اسے ہر وقت کہتا ہوں کہ اکرم یار تو میرا پہلا دوست اور آخری گرل فرینڈ ہے۔
اچھا ملیر ایک کمال کا لسنر ہے۔ سن سکتا ہے۔ جو بھی بول لو۔ ہم جذباتی دوست بونگیاں مارتے جائیں گے اور وہ سنتا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ خدا نے اکرم کو سننے کی اضافی حس دے کر بھیجا ہے۔ ہاں نا قدرت کو تو سب پتا تھا کہ جی ایم اور مجھ جیسے باتونی اس کے دوست ہونے ہیں۔ تو وہاں ایک لسنر کی ضرورت تو بہرحال ہوگی۔ اکرم کا رئیکٹ کرنے کا میکانزم بہت شائستہ اور دھیما ہے۔ وہ ایسے باغی بن کے حملہ آور نہیں ہوجاتا بلکہ اپنا یار احتجاجی تو ہے نہی۔ زیادہ سے زیادہ مسکرا دے گا پھر خواب زدہ آنکھوں کا فیز بدل دے گا۔ مجھے تو کبھی لگتا ہے زبان بس اضافی ہے اپنے ملیر میں ، کمیونیکیشن تو وہ ساری آنکھوں سے کرتا ہے۔۔۔۔اچھا کان کا کچا پھر بھی نہیں۔
ملیر سے اپنی دوستی تو بیس سال پرانی ہے۔ اتنی پرانی جتنے ملیر کے ٹین ایج معاشقے۔ جس کے بارے میں ملیر نے ہمیں اندھیرے میں رکھنے کی حتی الامکاں کوشش کی۔ اپنا جی ایم تو ادا محبت کے معاملے میں زرا سائیں ہے۔ شائد اسی لیے اس کی آجکل زیادہ اسائنمنٹ سندھ میں ہوتی ہیں سائیؤں کے دیس ۔ خیر بات ہورہی تھی ملیر کی گمنام ٹین ایج محبتوں کی جہاں سے ہماری دوستی کا بریج بھی بنا تھا۔ اچھا اپنے ملیر کی زمانہ محبت کی حالت کا اگر اب جائزۃ لیں تو ایک خیال دل میں آتا ہے کہ کچھ محبتیں کرنے کی نہیں ، طاری کرنے کی ہوتی ہیں۔ ملیر پر بھی وہ ساری محبتیں بس طاری ہوگئی تھیں۔ ویسے زمانہ ٹین ایج میں تو بندہ کوشش میں ہوتا ہے کہ کسی طرح بس محبت سے ٹکراجائے۔ کچھ بانکے تو خواہش رکھتے ہیں کہ محبت وائرس کی طرح پھیلے اور بس پھیلتی جائے گلی محلے سے لے کر روح تک۔ خیر اپنے ملیر بھی اپنے زمانہ کم عمری میں معاملات عشق سے بیگانہ نہ رہا مگر ایسا بھی نہیں بگڑا کہ تمنائے عشق میں عزت ذات بھی گنوادی ہو۔
یہ تو ہماری کھوج لگانے والی حس نے جانا کہ اپنا ملیر کہیں خیال جاناں کی بستی بساچکے ہیں۔ اور اب ا س بستی پر خیال یار کی مسلسل ژالہ باری ہے۔ ورنہ جی ایم سائیں تو پورے دل سے ایمان لے آئے تھے کہ
ملیر اور محبت۔۔۔۔۔نا بابا نا۔۔۔۔
اب ہمیں کیا پتا تھا کہ ملیر تو سننے والی روح ہے سنانے والی نہیں۔ اس نے کہاں ہم سے شیئر کرنا ہے ۔ اب جب ہم فلیش بیک میں دیکھتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے ملیر کی صورت ہمیں سے مخاطب ہو۔۔۔۔۔۔پڑھ سکتے ہو تو پڑھ لو میری آنکھوں سے میری محبتوں کے فسانے ۔ ملیر ہمیں کرب کو پڑھنے کی دعوت دیتے رہے اور ہم قرب کے قصے منہ زبانی سننے کے شائق رہے۔ اور اسی کشمکش میں پتا ہی نہں چلا کہ دوستی کتنی گہری ہوگئی۔ ہاں اس سارے معاملے سے ایک سبق سیکھا زندگی کا کہ دوستی جتنی گہری ہوتی جاتی ہے تو دوست کے افئیرز میں دلچسپی بھی بڑھتی جاتی ہے۔
پھر موسم بدلے اور ملیر پر نئے رنگ چڑھے۔ اور یہ دیکھتے دیکھتے اپنا یار قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد آگیا۔ جی ایم بھی ادھر اور ہمارا ٹرائیکا مکمل ہوا۔ دل کا معاملہ تو رہا مسلسل۔ اور ایک بار دل کی بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے ملیر کو ایمرجنسی لے گئے۔ وہاں ایک خوبرو خاتون ڈاکٹر نے ملیر کی حالت دیکھ کے کہا کہ آپ اپنے دل کا بہت خیال رکھیں۔ لگتا ہے بہت بے وجہ دھڑکتا ہے۔
ملیر ایک زہین طالب علم تو تھے ہی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت انسان کے روپ میں بھی ڈھل گئے۔ بہت اچھے فقرہ ساز اور فقرہ باز قسم کے آدمی ہیں۔ ‘سجن پورہ ‘، ‘داماد خلیفہ’ اور ‘امام دین’ جیسی لاجواب تراکیب کے خالق بھی ہیں۔ دور جدید کی پیچیدگی کو خوبصورت تراکیب میں سمونے کا ہنر رکھتے ہیں۔ جیسے ایک دوست کی وقت مخصوص پر اٹھنے کی پابندی کو ‘سیکس الارم’ ، اور اس وقت ہونے والے معاملات زندگی کو ایک ‘ شرعی کام’ جیسی بےضرر ترکیب سے مزین کردیا۔
اچھا انسان سب کچھ تو دنیا کے لیے کرتا ہے لیکن کنھی کبھی اسے یہ خیال ضرور ستاتا ہے کہ اپنی آخرت کی بھی فکر کرنی چاہے۔ ایسی ہی ایک سوچ ہمارے ملیر کو آئی تو انہوں نے ایک دوست اڈاپٹ کر لیا۔ ایک دن وہ ایک درمیانے قد اور وسیع منہ والی شخصیت کو لے کر آگئے۔ ہمیں پتا چلا کہ ملیر اب اپنے نئے دوست کے ساتھ ائڈوائزری کیپسٹی میں منسلک ہوگئے۔ ہم سب ہاتھ ملتے رہ گئے، اور ملیر قبیلہ بلوچ کے بلال کا ایڈوئزر بن گیا۔ خیر اب پچھتائے کیا ہوت ۔۔۔۔۔۔ہم نے خود کو اس خیال سے بہلایا کہ آخر حق ہمسائیگی بھی تو کوئی چیز ہے نا۔
ملیر ایک خوبصورت کمپنی ہے ۔ بہت ہی وسعت ہے ان میں ۔۔۔سمجھنے کی اور جاننے کی۔ یار بیلی اکتاتے نہیں چاہے اپنا ملیر سارا وقت خاموش ہی کیوں نا رہے۔ اپنا ملیر ایک مکمل فیملی مین ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کی زیادہ خوبصورتی اسی میں ہے کہ سوئے رہو۔ اس لیے تو شادی ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں اور اپنا ملیر ابھی سویا ہوا ہے۔ اور کل کے لونڈے جن کو ائڈوائزری بھی ملیر نے دی اپنے نمونے لیے پھر رہے ہیں۔ خیر سارے کام انسان کے بس میں بھی نہیں ہوتے اور کچھ دوسری شادی کے لیے بھی تو معاملات ترتیب دینے ہوتے ہیں نا۔
Ghulam Mustafa says:
Mulair ek naik roh insaan ha.unki shakhsiyat se hamesha bahut kuch sekhne ko mila. Mulair ki ahmiat hamari life mn aisi ha k un k baghair guzra hua ek bhi din hamare liye boring aur adhora sa lagta ha. Mulair ne hamesha aurat k jamaliyati husn ko saraha ha aur use apni hasasiyat se use char chand lagaye hain. Mulair hasaas hone k sath sath bahut deep feelijgs rakhta ha aur apni feelings ko andar hi andar daba k rakhta ha ..jis tarah baig sahab ne kaha ha k agar aankhon se parh sakte ho to parho mer8 mohabat ka afsana warna zubaan par
kabhi nae laate. Mulair ek acha naseh bhi ha..mujh jaise bigre hue shakhs ko hamesha naseehat karte rehte hain zindagi k har pehlu mn. Mulair sach mn ek family ki tarah ha. Mulair na sirf bilal ka adviser ha balkeh ham sab k adviser ha han ye aur baat ha bilal k lye unhen special khidmaat deni pari😀
Aur main kya likho mulair k bare..likhe pe ayen to alfaaz kam par jayen. Bas aakhir mn ek shair k sath khatam karon ga..
“tum na they to weerana tha,,,
Ab jo a gaye ho to jaam e bahar a gaya ha “
Rimsha Hussain says:
👍👍👍آپ کی کھوج لگانے والی حس متاثرکن ہے
Yaseen Baig says:
مجھے خوشی ہے کہ آخر آپ مان گئی
Elària Ælish says:
دوستی خدا کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہوتی ہۓ ۔ دوست نہ ہوں تو زندگی ادھوری سی لگتی ہۓ ۔آپکے دوست صاف دل اور بہت حساس انسان معلوم ہوتے ہیں اللہ تعالی آپکی دوستی ہمیشہ سلامت رکھے آمین۔
Yaseen Baig says:
شکریہ الیریا
آپ نے بجا فرمایا ۔ میرے دوست بہت خوبصورت اور حساس دل رکھنے والے انسان ہیں۔